en-USur-PK
  |  
Category
10

مچھلی کے منہ سے معجزانہ طور پر سکہ نکالانا

posted on
مچھلی کے منہ سے معجزانہ طور پر سکہ نکالانا

 THE MIRACLES OF CHRIST

معجزاتِ مسیح

28-Miracle   

Miraculous Temple Tax in a Fish's Mouth

Matthew 17:24-27

 

مچھلی کے منہ سے معجزانہ طور پر سکہ نکالانا

۲۸ ۔معجزہ

انجیل شریف بہ مطابق حضرت متی ۱۷باب ۲۴تا۲۷

مرحوم علامہ طالب الدین صاحب بی ۔ اے

؁ ۱۹۰۵ء

اس معجزے کا بیان صرف حضرت متی کی انجیل میں پایاجاتا ہے۔ اور اسکےمتعلق اس بات پر بحث ہے کہ جس مثقال کا ذکر اس بیان میں درج ہے آیا اس سے رومی شہنشاہ کا جزیہ مراد ہے یا وہ نذرانہ جو ہیکل کے اخراجات کے لئے ادا کیا جاتا ہے ۔

صحیح خیال یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ آدھا مثقال ہے جو ہیکل کے خرچ اخراجات کے لئے یہودی ادا کیا کرتے تھے۔ لفظ محصول یا جزیہ مغالطہ میں ڈالنے والا ہے ۔ لیکن ہمارے نئے ترجمہ میں سرخی اس طرح درج ہے " ہیکل کے محصول کو ادا کرنا " اس مغالطہ کو رفع کرتی ہے۔

اگستین ،اریجن ،اسکندریہ کا کلیمنٹ اور کالون یہ بزرگ اسے سرکاری محصول سمجھتے تھے گو موخرالذکر یہ مانتا تھا کہ پہلے یہ روپیہ ہیکل میں دیا جاتا تھا۔ مگر جب ہیکل کی خدمات بند ہوگئیں تو رومی خزانہ میں جانے لگ گیا۔ لیکن ٹرنچ صاحب کہتے ہیں یہ خیال تاریخی صداقت کے بیان کے خلاف ہے کیونکہ جس وقت کا یہ ذکر ہے  اس وقت ہیکل کی خدمات جاری تھیں اور "فدیہ " کا روپیہ ہیکل ہی میں ادا کیا جاتا تھا۔ ٹرنچ صاحب اس بات کے ثبوت میں یہ ہیکل کا مثقال ہے یہ دلائل پیش کرتے ہیں۔

۱۔کہ جو رقم یہاں بتائی گئی ہے وہ اس رقم کے برابر ہے جو خروج 30باب 11تا 16آیت کے مطابق ہر یہودی کی طرف سے جو بیس برس سے اوپر تھا ہیکل کے اخراجات کے لئے واجب الادا سمجھی جاتی تھی۔ یہ نذر " فدیہ " کہلاتی تھی۔ البتہ خروج کے مقام مذکورہ بالا کے مطابق صرف اسوقت ادا کی جاتی تھی جب کہ مردم شماری ہواکرتی تھی۔ لیکن چند عرصہ کے بعد یا تو خدا کی ہدائت سے یا کسی رسم کے سبب سے یہ نذرانہ سال بسال ادا ہونے لگ گیا۔ (صحیفہ حضرت نحمیاہ 10باب 32آیت ) لوگوں نے عہد کیا کہ وہ مثقال کا تیسرا حصہ ادا کیا کریں گے حالانکہ دستور آدھے مثقال کا تھا۔ اس تحفیف کا سبب غالباً یہ تھا کہ نحمیاہ کے زمانہ میں بنی اسرائیل تنگ دست ہوگئے تھے ۔ اور اگر کوئی یہ کہے کہ کیا انہوں نے اس رقم کوجو خدا نے مقرر کی تھی بدل ڈالا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ شریعت نے جو بات مقرر کی تھی سو یہ تھی کہ آدھا مثقال مردم شماری کے وقت ادا کیا جائے ۔ اور یہ سالانہ ادائیگی تھی۔ جوسیفس اور فائلو کے زمانہ میں یہ فدیہ کا روپیہ سالا نہ ادا کیا جاتا تھا۔

          ۲۔اگر یہ سرکاری محصول ہوتا تو جمع کرنے والے " مثقال لینے والے نہ کہلاتے بلکہ محصول لینے والے کہلاتے کیونکہ جو رومیوں کی طرف سے اس کام کےلئے مقرر ہوتے تھے وہ اسی لقب سے ملقب ہوا کرتے تھے۔

          ۳۔پھر ان کے سوال کی صورت بھی یہی ثابت کرتی ہے کہ روپیہ ہیکل کا تھا۔ کیونکہ سوال سے جبر ظاہر نہیں ہوتا بلکہ روپیہ کا ادا کرنا اختیاری امرمعلوم ہوتا ہے۔ اگر یہ محصول لینے والے سرکاری ملازم ہوتے تو ایسی نرمی سے کلام نہ کرتے ۔

          ۴۔مگر سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ مسیح حضرت پطرس کی طرف مخاطب ہوکر فرماتے ہیں کہ شمعون تو کیا سمجھتا ہے کہ دنیا کے بادشاہ کن سے محصول یا جزیہ لیتے ہیں؟ اپنے بیٹوں سے یا غیروں سے ؟ جب اس نے کہا غیروں سے تو مسیح نے اس سے کہا " پس بیٹے بری ہوئے " دلیل یہ ہے کہ اگر یہ محصول خدا کا نہیں بلکہ سرکاری ہے تو مسیح کے الفاظ " پس بیٹے بری ہوئے " بے معنی ہوجاتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ چونکہ مسیح خدا کا بیٹا ہے لہذا اپنی بادشاہت اور اپنے گھر کا مختار ہے ۔ پس زیب نہیں دیتا کہ وہ جس کے حضور یہ جزیہ ادا کرنا چاہئیے خود اسے ادا کرے۔ وہ توخود ہیکل کا مالک ہے لہذا وہ مجبور نہیں کہ خود فدیہ کا روپیہ ادا کرے۔ یہ کہنا کہ وہ یہاں اپنے شاہانہ حسب نسب کی طرف اشارہ کرتا ہے کیونکہ وہ داؤد کی نسل سے تھا درست نہیں کیونکہ وہ کہتا ہے کہ " کن سے جزیہ لیتے ہیں اپنے بیٹوں سے غیروں سے " مسیح داؤد کا بیٹا تھا مگر قیصر کا بیٹا نہ تھا ۔ پس اس  بنیاد پر کہ وہ داؤد کا بیٹا تھا وہ اس محصول سے بری نہیں ہوسکتا تھا۔ پر اگر ہم یہ مانیں کہ یہ روپیہ ہیکل کے وسیلے خدا کو جو بادشاہوں کا بادشاہ ہے ادا کیا جاتا تھا تو یہ بات صاف ظاہر ہے  کہ مسیح کس بنا پر اپنے تئیں اس محصول سے بری ٹھیرانا جائز جانتے تھے۔ روپیہ خدا کو ادا کیا جاتا تھا۔ پر وہ خدا کا بیٹا ہے لہذا اس روپیہ کے ادا کرنے سے آزادی اور بری ہے ۔ اور اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ مسیح یہ نہیں کہتے کہ " بیٹا بری ہوا " بلکہ یہ کہتے ہیں کہ " بیٹے بری ہوئے " پس تم کس طرح اس سے یہ مراد لیتے ہو کہ مسیح اپنی نسبت آزادی کا دعوے کرتا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے چونکہ مسیح بادشاہوں " کا لفظ صیغہ جمع میں استعمال کرتے ہیں لہذا زبان کی رعائت سے بیٹوں کا لفظ بھی بصیغہ جمع لاتا ہے۔

آیت نمبر ۲۴۔اور جب کفر ناحوم میں آئے تو مثقال لینے والوں نے پطرس کے پاس آکر کہا کیا تمہارا استاد مثقال نہیں دیتا؟

معلوم ہوتا ہے کہ اس موقعہ پر سیدنا مسیح اور حضرت پطرس اور شائد اور شاگرد بھی کفر ناحوم میں اپنے معمولی دوروں میں سے کسی دورہ کو ختم کرکے لوٹ آئے تھے اورجب مسیح اور ان کے شاگرد کسی راستہ سے گذرہے تھے اس وقت مثقال جمع کرنے والوں نے حضرت پطرس سے جو مسیح کے پیچھے پیچھے جارہا ہوگا یہ سوال کیا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ سوال گستاخانہ طورپر کیا گیا اور بعض کی رائے یہ ہے کہ گستاخی سے نہیں کیا گیا تھا۔ بہر کیف انہوں نے حضرت پطرس سے پوچھا کہ تیرا استاد ہیکل کا روپیہ ادا کرتا ہے یا نہیں؟ پطرس اپنی معمولی جلد بازی کے مطابق فورا ً جواب دیتا ہے کہ ہاں ادا کرتا ہے ۔ شائد اس نے غیرت مندی سے یہ جواب دیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ مسیح ان تمام فرائض کو جوشریعت کی راہ سے لازمی تھے پورے پورے طور پر ادا کیا کرتے تھے۔ یونانی میں مثقال کے لئے لفظ دوزخمہ آیا ہے جو برابر ایک مثقال کے ہوتا تھا اور قیمت میں ہمارے روپیہ کے برابر تھا۔ اور دو آدمیوں کے لئے کافی تھا۔ اس نے کہاہاں دیتا ہے۔

آیت نمبر ۲۵۔اور جب وہ گھر میں آیا تو مسیح نے اس کے بولنے سےپہلے ہی کہا اے شمعون تو کیا سمجھتا ہے کہ دنیا کے بادشاہ کن سے محصول یا جزیہ لیتے ہیں ؟ اپنے بیٹوں سے غیروں سے ؟

پطرس نے غیرت میں آکر یہ تو کہا دیا کہ "ہاں دیتا ہے " مگر وہ اپنے اس عجیب اقرار کو بھول گیا جو تھوڑا عرصہ ہوا کیا تھا " توزندہ خدا کا بیٹا مسیح ہے " (حضرت متی 16باب 16آیت )یا تووہ اس اقرار کی پوری گہرائی سے واقف نہ تھا اور اگر تھا تو اس وقت اسے نظر انداز کرگیا۔ بہر حال اس کو یہ بات یاد نہ رہی کہ میرے مالک کا اصل مرتبہ اورمنصب اس بات کا متقاضی ہے کہ محصول اس کو دیا جائے نہ اس سے لیا جائے ۔ وہ ہیکل سے بڑا تھا پس یہ لازم تھا کہ فدیہ کا روپیہ اس کے حضور ادا کیا جاتا نہ کہ اس سے لیا جاتا ۔ اب مسیح قبل اس کے پطرس خود بتائے آپ اس سے پوچھتے ہیں کیونکہ اس پر خفی جلی سب بھید کھلے تھے اور وہ پوشیدہ باتوں سے واقف تھا۔کیا تو سمجھتا ہے کہ دنیا کے بادشاہ وغیرہ" وہ اس سوال سے گویا پطرس کو یاد دلاتا ہے کہ تو نے ابھی ابھی مجھے زندہ خدا کا بیٹا کہا تھا۔ اور تو جانتا ہے کہ یہ روپیہ جو جمع کیا جاتا ہے خدا کو ادا کیا جاتا ہے ۔ اور یہ بھی جانتا  ہے کہ بادشاہ اپنے بیٹوں سے محصول نہیں لیا کرتے بلکہ غیر اور اجنبی لوگ محصول دیا کرتے ہیں۔ اب اگر یہ صحیح ہے تو میں بھی جو خدا کا بیٹا ہوں اس محصول سے آزاد ہوں کیونکہ میں اپنے باپ کے گھر کا مختار ہوں۔ یہ ہم اوپر بتا آئے ہیں کہ کیوں بیٹے "کہتاہے اور "بیٹا " نہیں کہتا ۔

آیت نمبر ۲۷۔مگر اسلئے کہ ہم انہیں ٹھوکر نہ کھلائیں تو جھیل پر جاکر بنسی ڈال اور جو مچھلی پہلے نکلے اسے لے لے اور جب اس کا منہ کھولے گا تو ایک سکہ ملے گا۔ وہ لے کر میرے اور اپنے بدلے انہیں دے دینا ۔

سیدنا مسیح اپنے تیئں اس روپیہ کے ادا کرنے سے بالکل بری سمجھتا ہے ۔ مگر چونکہ شاگرد کہہ آيا ہے کہ فدیہ کا روپیہ ادا کیا جائے گا اور چونکہ نہ ادا کرنے سے یہودیوں کو یہ الزام لگانے کا موقع ملتا کہ وہ اور اس کے شاگرد ہیکل کی قدر نہیں کرتے بلکہ شریعت کو توڑتے ہیں لہذا مسیح دو رخمہ دینے کا انتظام کرتے ہیں اور وہ اس طرح کہ اپنے شاگرد کو وہی کام کرنے کو کہتا ہے جس سےوہ خوب مانوس ہے ۔ پیشہ ماہی گیری سے پطرس بخوبی واقف تھا۔ سو مسیح نے اسے بنسی ڈالنے کوکہتے ہیں۔ شائد وہ یہ مقرری رقم اگر چاہتے تو کسی اور طرح سے بھی دے سکتے تھے مگر ایسا کرنے سے وہ مطلب زائل ہوجاتا ہے۔ جو مچھلی کے منہ سے سکہ پانے سے برآمد ہوا۔ جناب مسیح محصول کا روپیہ تو ادا کرتے ہیں مگر وہ روپیہ ایسے طریقے سے دستیاب ہوتا ہے کہ شاگردوں پر بخوبی روشن ہوجاتا ہے کہ مسیح جو روپیہ کا اداکرنے والا ہے واقعی تمام مخلوقات کابادشاہ ہے خشکی اور تری کا مالک انسان اور حیوان کا مالک ہے اور اس لئے اس کا عالی درجہ اور شاہی رتبہ اس کی شوکت اور اس کا جلال خدا کے بیٹے کی طرح ہے ۔ پس اس سے فدیہ کا روپیہ نہیں لینا چاہئیے بلکہ اس کے حضور ادا کرنا چاہیئے۔

انہوں نے اس کی تنگ دستی میں اس کی الہٰی دولتمندی کا جلوہ دیکھا۔ واضح ہو کہ مسیح نے بجز اس معجزے  کے کوئی اور معجزہ اپنی حاجت کےپورا کرنے کے لئے نہیں کیا۔ او ریہ بھی ا سکی ذاتی حاجت کی مرافعت کے لئے نہ تھا ۔ اور جو بات یاد رکھنے کے قابل ہے سو یہ ہے کہ یہاں واقعی  ایک حقیقی اور سچی ضرورت تھی جس کےرفع کرنے کے لئے اس نے یہ معجزہ کیا۔ اس خیال کے مقابلہ میں وہ معجزات جو اپاکرفل کتابوں میں درج ہیں اور مسیح سے منسوب کئے جاتے ہیں کیسے بے بنیاد اور بے مزہ معلوم ہوتے ہیں۔

اب رسول یہ نہیں بتاتا کہ پطرس گیا اور اس نے بنسی ڈالی اور مچھلی پکڑی اور سکہ پایا اور اسے مسیح کے پاس لایا وغیرہ یہ سب باتیں مقدر ہیں۔ مگر مسیح کا یہ حکم کہ جو سکہ تجھے ملے گا اسے لے کر میرے اور اپنے بدلے انہیں دینا "ظاہر کرتا ہے کہ مسیح نے فرمایا تھا ویساہی ہوا۔

مسیح " میرے اور اپنے بدلے " کہتا ہے ۔ اور "ہم دونوں کے بدلے " نہیں کہتا ۔ بعض لوگوں کی رائے میں یہ تفریق اس واسطے کی جاتی ہے کہ شاگرد مسیح کو اپنے زمرہ میں شامل نہ کریں۔ بلکہ یہ امتیاز کریں کہ وہ فدیہ کا روپیہ دینے والا نہیں بلکہ لینے والا ہے ۔ مگر چونکہ اس نے اپنی مرضی سے انسانی صورت اختیار کی اور شریعت کے تابع ہوا اس لئے وہ فدیہ کا روپیہ دیتا ہے تاکہ لوگ ٹھوکر نہ کھائیں۔

یاد رہے کہ معجزہ صرف اس غیب دانی میں تھا کہ فلاں مچھلی کے پیٹ میں سکہ موجود ہے بلکہ اس بات میں بھی کہ اس نے اپنی قدرت سے اسی مچھلی کو پہلی مرتبہ پطرس کی بنسی کے پاس بھیجا جس کے پیٹ میں وہ سکہ پایا جاتا تھا۔ جس طرح اور مخلوقات اسی طرح مچھلیاں اور بحری جانوربھی اس کے تابع اور اسی میں جیتے ہیں (بائبل مقدس صحیفہ حضرت یوناہ 1باب 17آیت ،1سلاطین 13باب 24آیت ،20باب 36آیت ،صحیفہ حضرت عاموس 9باب 3آیت )اس معجزہ کے متعلق دوباتوں سے خبردار رہنا چاہئیے۔ اول یہ کہ ہم ان تاویلوں سے بچیں جو یہ بیان کرتی ہیں کہ معجزہ وغیرہ کچھ سرزد نہیں ہوا۔ صرف مسیح نے پطرس سے یہ کہا کہ ہاں بھائی کومحصول تو دینا چاہئیے پر کس طرح دیا جائے ۔ بہتر ہے کہ تم جاؤ اور مچھلیاں پکڑو اور ان کو بیچ کر جو رقم دینی ہے کمالاؤ۔یہ خیال بالکل لغو اور باطل ہے کیونکہ جن الفاظ میں معجزہ بیان کیا گیا ہے ان میں کوئی بات ایسی نہیں جو اس لچر خیال کی تائید کرے ۔ او رپھر اس کے ساتھ ہم اس تشریح سے بھی اجتناب کریں جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ مسیح نے بالکل از سر نو مچھلی اور سکے کو خلق کیا۔ ہم اس کی خالقیت کے دل وجان سے قائل ہیں۔ ساری چیزیں اس کے وسیلے سے پیدا ہوئیں اور جو کچھ پیدا ہوا ہے اس میں سے کوئی چیز بھی اس کے بغیر پیدا نہ ہوئی۔ " تو بھی ان معجزوں کے متعلق یہ ماننا ضروری نہیں کہ تخلیق مطلق وجود میں آئی۔

پھر اس معجزے سے بعض پرانے بزرگوں نے علامتی معنی نکالے ہیں مثلاً یہ کہ مچھلی کہ منہ میں جو سکہ تھا اس سے غرور مراد ہے ۔ اور مچھلی سے گناہ گار انسان جو ایمان لاتا ہے اور پانی سے دنیا کا ویرانہ جس سے گنہگار انجیل کی بنسی سے پکڑا جاتا ہے پس مراد یہ ہے کہ آدمیوں کے ہر مچھوےکو لازم ہے کہ وہ ہر شخص کے منہ سے جو ایمان لاتا ہے غرور کا سکہ نکالے ۔ اس قسم کی تفسیروں کی کچھ ضرورت نہیں۔ معجزہ خود جیسا ہے روحانی معانی سے پر ہے ۔

نصیتحیں اور مفید اشارے

1۔سیدنا مسیح کیسی احتیاط اور خبرداری سے کام لیتے ہیں تاکہ لوگ غلط فہمی میں نہ پڑیں۔ وہ پطر س کے ساتھ بڑی خبرداری سے گفتگو کرتے ہیں اپنے چلن سے یہودیوں کو کڑکڑانے کا موقع نہیں دیتے ہیں۔

2۔ہماری دانست میں مسیح کی گفتگو جو پطرس کے ساتھ ہوئی اور جس میں اس نے یہ دعوے کیا میں نیم مثقال کے ادا کرنے سے آزاد ہوں پختہ اور لاجواب ثبوت اس امر کا ہے کہ وہ الہٰی شخص تھا۔ ہم نے تفسیر دکھا دیا ہے کہ وہ اور کسی طرح یہ دعوے نہیں کرسکتا تھا۔ او رپھر یہی بات اس طریقہ سے ثابت ہے جس سے اس نے یہ چندہ اداکیا۔ اس کے وسیلے وہ ظاہر کرتے ہیں کہ تمام بحری اور بری قدرتوں کا مالک اور بادشاہ ہوں۔

3۔اس معجزے نے یہ بھی ظاہر کردیا کہ وہ کیسا دولتمند ہے ا س کی حشمت اس کا جلال عیاں ہے۔ پر ہمارے لئے اس نے غریبی اختیار کی اور اپنے آپ کو پست کیا۔

4۔مسیح نے کبھی کوئی معجزہ اپنے فائدے یا اپنی ضروریات کے رفع کرنے کے لئے نہیں کیا۔ وہ ہمیشہ اپنی قوتِ اعجازکو اوروں کی بھلائی کے لئے کام میں لاتا تھا۔ یہ معجزه بھی اس نے اپنی کسی ذاتی ضرورت کے لئے نہیں کیا۔

5۔نیچر اور مسیح ۔ وہ ساری نیچر کا عالم (2)ساری نیچر کا حاکم (3)اور ساری نیچر کا ناظم ہے ۔

Posted in: مسیحی تعلیمات, بائبل مُقدس, یسوع ألمسیح, خُدا, معجزات المسیح, نجات | Tags: | Comments (0) | View Count: (21918)
Comment function is not open