en-USur-PK
  |  
Category
10

مسیح مصلوب

posted on
مسیح مصلوب

مسیح ِمصلُوب

(بقلم  جناب  اسحقٰ رحیم بخش صاحب  ،  بی ۔ اَے، ایل۔ ایل۔ بی،  جج عدالت خفیفہ، لاہور)

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

فلورنس کی ” نیوزی آرٹ گیلری“ میں ایک  سیاّح نے ناظم گیلری  سے طنزاً  کہا ”  کیا یہ تُمہارے شاہکار ہیں“؟ مُجھے تو اِن میں کچُھ نظر نہیں  آتا۔ ناظم نے جواباً کہا۔  ” جناب امتحان اِن تصاویر کا نہیں۔ دیکھنے والوں کاہے۔“

حُضور المسیح کی زمینی  حیات طیّبہ  جِس کی تکمیل  صلیب  پر ہوُئی۔  نسل اِنسانی کے اِخلاقی ضمیر کے لئے  ایک چیلنج  ہے  جو  اِس چیلنج  کو قُبول نہین کر سکتے تو یہ مسیحیت  کی اَصل  پر صَرف  نہیں بلکہ خوُد اُن کی اخلاقی نا اہلّیت  پر حرِف آخِر ہے۔ کِس کو گمان تھا کہ ذبیحۂ اللہ  کی صلیب کی قُوتّ  ہر دور میں تاریخ کے دھارے کا رُخ پِھیر دے گی؟

عام تصّور  میں گردش ایاّم  کو پیچھے  دوڑائیے۔ کو کلوّری  کے دامن میں ایک  جمعہ کے روز اپنے کو یروشلؔم  میں ایک  ہجوم  میں گھِرا پایئے۔   آپ ایک یُہودی سے سوال کر رہے ہیں کہ  دُنیا کے اختیار  کا  مرُکز کیا ہے۔ وُہ اختیار جو تمام عالم پر محیط  ہو گا؟ کیا آپ یہ جواب نہ سُنیں گے کہ ”مُرکز عالم ہیکل  ہے۔ تاریخ کے زرّیں کارنامے اِس  سے وابستہ  ہیں اور آیندہ بھی زرّین تعلقات  اور اُمیدیں وابستہ ہیں“ ایک رومن اِس جواب سے سیخ پا  ہو کر  طنزاً یہ کہہ  رہا ہے “  رُوم  کا ابدی شہر تمام دُنیا  کی مَلکہ ہے۔ اختیار قُدرت و حیُروت کا مرُکز“ یہ جواب یوُنانی  کو اپنی خاموشی توڑنے پر مجبوُر کرتا ہے  ” کیا آپ  نے ایتھنز دیکھا ہے؟ دُنیا  کے تمدّن  اور عِلم و حکمت کا مرُکز۔ رُوما کی ماّدی   قُو تّ  کو ایتھنز  کا تمّدن اور فلسفہ نیچا دکھائیں گے“ کیا وُہ  ہمارے اِس  جواب  پر مضحکہ خیر قہقہ نہ لگائیں گے کہ زندگی کی قُوتّ   کا مرٔکز  وُہ  سے جو صلیب پر لٹکا ہے ہیٔکل  کی اینٹ سے اینٹ  بجے گی۔  کو ئی پتّھر  تک باقی نہ رہے گا۔ رُوم  کی حشمت قّصّۂِ  پار یتہ بن جائے گی۔ ایتھنزکا فلسفہ صرف چند طالب علموں کے زوق تجسُّس کو تسکین پہنچائے گا۔ مگر اِس مصلوُب کی قُوّت  زمانہ    بہ زمانہ فِکر انسانی کی نوک پلک دُرست  کرتی رہے گی اور اِس  کے مطالبے  اِنسان کی بگڑی اور پراگندہ  طبیعت  کو ہر وقت جھنجھوڑتے بے پناہ قُوتّ سے اِنکار کی جُرأت کر سکتے ہیں۔ جسمانی ازّیت  جو حساّس  ِطبیعتوں پر یقیناً  اثر انداز  ہوتی ہے صلیب  کی اصل  نہیں۔ مسیحیت  کی ابتدائی  چار پانچ  صدیوں میں ایک  دلچسپ  حقیقت  یہ وہی ہے کہ حضُور المسیح کی صلیبی مؤت  کی نقاّشی توجّہ کا مرٔکز قطعاً  نہ تھی  اور نہ ہی صلیب  کو نشان کے طور پر لوگ اپنے گلے میں لٹکائے یا ہاتھ میں اُٹھائے پھرتے تھے۔  زبیحۂ عظیم  کا مُقدّس واقعہ اور زِندہ جاوید المسیح  کی حقیِقی رفاقت کا تجربہ  مرکزِ فکرِوعمل  تھا۔ یہ بات  خطرہ سے خالی  نہیں کہ  کانٹوں کے تاج  ۔ میخوں اور کوڑوں پر اپنی   توجہّ  مبذُول  کر کے ہم اُن  اخلاقی اور روُحانی اقدار کو جو  اُس وقت  خطرہ میں تھیں اور أب  بھی ہیں فراموش کر دیں۔  یروشؔلؔم  کے محاصرہ کے بعد قیصِر  طیطؔس کے حُکم  سے تیس ہزار یُہودیوں  نے  جنہیں صلیب  پر لٹکایا گیا حُضور المسیح  سے زیادہ  ازّیت برٔداشت   کی ہو گی لیکن اُن کی جسمانی  ازّیتیں  اُن  کے نام کو قہر گمنامی میں دھکیلے  جانے اور اُن  کے مُلک  کو   تباہی  سے نہ بچا  سکیِں۔  حضُور المسیح کی مؤت  جسمانی  ازیتوّں کے باعِث مرکزِ توجّہ  نہیں بلکہ  اِن رُوحانی  اقدار  کی حفِاظت کے باِِ عِث ہے جن کی مَوت سے شیطنت اور آدمیت میں کوئی تفریق  نہ رہ جاتی۔

صلیب اُن ضمائر کے لئےِ قُو تّ و ایمان کا سر چشمہ ہے جن میں حق کی پاسبانی کے ہر وقت  اور ہر گھڑی باطل کی آزمائشوں اور قُوتّوں  کی کشمکش  اور جنگ جاری ہے جس کے نتیجہ  پر نہ صرف  فَرد بلکہ  کُل  انسانیت  کا بقا کا انحصار ہے۔

اگر حضوُر المسیح  کی قیامت ایک ” شاعرانہ  تخلیق“ یا  ”افسانہ“ تھی  اور زخموں  سے نڈھال ہو کر عالم ِ بیہوشی میں سونے  والا۔ مرہم عیسےٰ کے طفیل ۔ حواریوں اور بَددیانت  رومن گارڈ  کی معاونت سے پتّھر لڑھکا کر قبر سے با ہر آگیا   تو اِس افسانہ سے زیادہ ناقابل اعتماد  وُہ  حقائق ہیں جو حضوُر المسیح  کو وجہیا”فی الدنیا وا لآخرت“                     ”کلمتہ اللہ و رُوح اللہ“ کے القاب گرامی سے مُمیّز کرتے ہیں۔ ماُیوسی۔ ناکامی اور خوف سے متاثرہ گروہ ِجن کے پا س جُمعہ کے رات زِندگی اور اُس کے اقتدار کا کوئی مصالحہ و  سامان نہ تھا۔  کِس کی قُوتّ و      رُوح   سے لبریز و سرشار ہو کر  اَیسی تحریک کا رُوح رِواں بنا جِس نے بدی کو اُس کی  خندقوں میں للکارا۔  أبدی  و ازلی  روما کو زیر و زبر  کیا۔  ( عسکری قُوتّ سے نہیں)  خُدا کی صُورت پر   پَیدا کئِے   گئے اِنسان کو اُس کی عظمتوں  سے آشنا کیا۔  آدم  خوروں کو آدمیت کا پاسبان  بنایا۔ مُحبت۔ مُعافی۔ نجات۔ رحم  اور ظاہری  پارسائی کی  بجائے رُوح و ضمیر کی عبادت  کو سرُبلندی اور بُزرگی کا طُّرهٔ اِمتیاز  بیایا۔ کیا یہ رُوح اِنسانی  کا انقلابِ عظیم  ایک جُھوٹ پر اُستوار کیا گیا تھا؟

”قانون“  تو اَن  پڑھوں  کا گروہ بھی مرتّب   کر سکتا ہے۔ ” رواج“  بھی قانُون  کی عظمت  حاِصل کر سکتا ہے۔  قانُون کے رُوحانی  تقاضوں  کو پُورا  کرنے کی اہلیّت بلا جبر و اِکراہ کو ن  بخشتا ہے؟ خیال و  نظر کو وُہ پاکیزگی جِس سے جِسم  تو درکنار زہن  بھی آمادۂ گناہ نہیں ہوتا کِس کے فیضانِ نظر کا کرشمہ ہے؟ مَرد و زن کو ایک ہی جماعت  میں ہم رُتبہ کر کے ”نجس جنِسّیت“ کے برص  سے پاک و صاف  رکھنے والا کیا ” جُھوٹ اور فریب “  کا خُدا تھا ؟ اشتراکیت کا ” سوشل اِنصاف“ کِس کا ”پس خوردہ“ ہے۔ ” گُناہ“  اور اُس کے مکروُہ  نتائج  تو سب نے   سمجھا دئیے۔  لیکن گُناہ کے مکرُوہ برص سے پامال و نڈھال اِنسان کو کِس نے اپنے سیِنے سے لگا کر ” خُدا کے فرزند“ اور ” لے پالک“  ہونے کا فخر و حق بخشا۔ الہیٰ زندگی کا پیوند۔ بے برَانسانیت  میں کس کے خوُن اقدس سے مکمّل  ہوُأ؟  اگر بندهٔ  مومن کا ہاتھ اللہ کا ہاتھ  ہے  تو پھر روُحُ القدس سے تیاّر کِیا ہُوأ المسیح  کا جِسم   اطہر کیوں ” بیت اللہ“  نہیں۔ اور اِس  زندہ ہیٔکل اپنی ازلی اور أبدی  محبت کا ثبوت دینا کیوں توہین اِلہیٰ ہے؟  اِنسان سے اتم  قُربانی کا مُطالعہ عین شان ِخدُاوندی ہے۔ لیکن اپنی صُورت پر بنائے ہوُئے اِنسان کو ”حیاتِ نو“  دینے کے لئے آسمانی مقاموں کو چھوڑنا اُس کی زلّت پر دال ہے! صلیب کی اصل حقیقت یہ ہے کہ       ؎

ما از خُدا گمشدہ ایم اُو بہ جُستجو ست

چُوں ما نیاز مند و گرفتازِ آرزو ست

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 

Posted in: مسیحی تعلیمات, خُدا, بائبل مُقدس, یسوع ألمسیح, نجات | Tags: | Comments (3) | View Count: (23392)

Comments

  • ARK
    The article below appeared in www.ehrmanblog.org this blog is run by an American University professor of Religious studies and bible scholar.So we can't dismis his wirtings as prejudice or lie.
    4/16/2017 6:29:18 AM Reply
  • ARK
    Did Jesus really die on cross or it was a story fabricated by his followers.We don't know because we were not there so for us to know truth we have to see all sides. so please read this............................................................................... One of the first books that I have re-read in thinking about how it is the man Jesus came to be thought of as God is Gerd Lüdemann’s, The Resurrection of Christ: A Historical Inquiry (2004). Lüdemann is an important and interesting scholar. He was professor of New Testament at Göttingen in Germany, and for a number of years split his time between there and Vanderbilt Divinity School in Nashville. He is a major figure in scholarship, and is noteworthy for not being a Christian. He does not believe Jesus was literally, physically, raised from the dead, and he thinks that apart from belief in Jesus’ physical resurrection, it is not possible for a person to be Christian. This book is written for people with a lot of background in New Testament studies. It is exegetically based, meaning that he goes into a detailed examination of key passages to uncover their literary meaning; but he is ultimately interested in historical questions of what really happened. To follow his exegesis (his interpretation) requires a good knowledge of how NT scholars argue their points: the book is aimed at other NT scholars and, say, graduate students in the field. The basic historical conclusions that Lüdemann draws – based on a careful analysis of all the relevant passages and a consideration of the historical events that lie behind them – is this: o When Jesus was arrested and crucified his disciples fled. They did not go into hiding in Jerusalem – then went back home, to Galilee (where *else* would they go? They went home, to get out of Jerusalem!) o Soon after, it was in Galilee (not in Jerusalem) that belief in the resurrection occurred. It occurred because Peter had a vision of Jesus that included auditory features (he thought he saw and heard him). o This “vision” was induced by psychological factors. Peter felt terrifically guilty for having denied Jesus, and the “vision” he had brought forgiveness from his deep guilt. o This vision was like other visions that people have (all the time): visions of dead loved ones; visions of the Virgin Mary. In these visions, of course the loved ones do not *really* come back to life from the dead, and the Virgin Mary does not *really* show up at Lourdes, etc. These are psychologically induced visions. o Still, like other people who have visions, Peter took the vision to be real and assumed that Jesus was alive again, in heaven. o Peter brought the other disciples together, and maintained with them that the end time was near, as Jesus had originally preached, and that the kingdom of God was soon to appear. The evidence? The resurrection of the dead had already begun. The evidence? Jesus had been raised. The evidence? He had appeared to Peter. All this is happening in Galilee. o The vision was infectious, and the mission got underway. o Even Jesus’ brothers were caught up in the excitement and James became a believer in Jesus. o The other person who had a genuine vision of Jesus was much later, the apostle Paul, who too experienced a psychologically induced vision of Jesus. In this case, he found Jesus’ teaching of forgiveness and mercy appealing, even as he was violently persecuting the church as an enemy. But forgiveness won out and in a cataclysmic break from his past, Paul had a vision of the living Jesus, convincing him that Peter and the others were right: Jesus was still alive, and therefore had been raised from the dead. o Some Christians thought that these visions showed that Jesus was spiritually exalted to heaven – not that his body had been physically raised from the dead. o Others, including Peter and Paul, insisted that in fact Jesus had experienced a physical resurrection of the body, which had been transformed into an immortal body before being exalted to heaven. o The implication was that the tomb was emptied before Jesus’ started to make his appearances (other Christians also claimed to see him, but it is hard to establish that any of the others actually had any visions – they may have simply been building on Peter’s original claim). o But by this time it was too late to know whether the tomb was really empty. For several reasons:  We don’t know how much after his death the vision to Peter came; Acts suggests that it was fifty days before the preaching began; if so, the body would have decomposed.  No one knew where he was buried anyway (the story of Joseph of Arimathea may be a later account, not something that really happened; Jesus may have been buried in a common grave or somewhere no one knew.  It is worth pointing out, Ludemann notes, that Christians in Jersualem appear to have placed ZERO emphasis on the location of the tomb. It was not until 326, according to Eusebius, was the alledged site of burial “rediscovered” under a temple dedicated to Venus. Life of Constantine 3.26-28. And so, the short story: Chrsitianity started among Jesus’ followers in Galilee, sometime after his death, after Peter had a vision of Jesus that was psychologically induced. So, to be clear, I’m not saying I agree with this entire reconstruction. But it’s very interesting, based on a detailed examination of all the evidence from the NT (and outside) by a skilled interpreter, and worth bearing in mind when trying to figure out what really happened both to Jesus’ body and to the followers of Jesus to make them believe it had been raised from the dead.[\private]
    4/16/2017 6:27:54 AM Reply
  • Jo admi saleeb pay hay voh Masih nahi hay balkay Judas Iscariot hay.
    4/15/2017 5:33:16 AM Reply
Comment function is not open