The Life of Muhammad
محمد کی زندگی کے ابتدائی ایام:
محمد 8 جون کو سنہء 570 عیسوی میں مکہ میں پیدا ہوا۔ اور 62 سال کی عمبر میں 8 جون کو سنہء 632 عیسوی کو جہان فانی سے کوچ کرگیا ( گو کہ اس پر علماء متفق نہیں) 6 سال کی عمر میں وہ یتیم ہو گیا اور دو سال تک اس کی کفالت اس کے دادا نے کی اور ان کی وفات کیبعد ، ابوطالب ان کے ایک خالو نے ان کی پرورش و کفالت کی۔
12 سال کی عمر سے انکی سرپرستی ایک نسطوری فرقہ کے ایک درویش نے کی ، کہا جاتا ہے کہ اس نے جب محمد کی پشت پر موجود ایک بڑا سیاہ تل دیکھا تو وہ جان گیا کہ محمد مستقبل میں ایک نبی ہوگا۔ (صحیح مسلم 4:5793؛ البخاری 1:189؛ ابن اسحاق ، محمد کی سوانح ِ حیات، صحفہ نمبر 80، 96، 97، 726)
محمد ایک امیر تاجر بیوہ بنام خدیجہ کی ملازمت اختیار کر لی۔ بعد میں اس نے جب وہ محض 25 سال کا تھا اس سے شادی کرلی جو اس وقت 40 برس کی تھی۔ ان دونوں کے 4 بیٹے اور 4 بیٹیاں پیدا ہوئیں، لیکن صرف بیٹیاں ہی سن بلوغت تک پہنچ پائیں۔
اسلام کا ظہور:
چالیس سال کی عمر میں محمد نے علیحدگی میں گوشہ نشنی کی خاطر میں غارِ حرا میں جانا شروع کردیا۔ یہ رسم اس وقت مقبول عام تھی، جب کہ اکثریت بیشمار بتوں کی پوجا کرتی تھی ، محمد نے زید بن عمر سے متاثر ہو کر جو کہ ایک حنفی تھا، (ایک خدا کو ماننے والے) بتوں سے اپنی نفرت کا اظہار کرنا شروع کردیا۔
غور و فکر کی روحانی مشقوں کے دنوں میں محمد نے مکاشفہ حاصل کرنے کا تجربہ کیا ، جو اس کے دعوی کے مطابق جبرائیل فرشتہ کی جانب سے ایک خواب کی صورت میں اس پر نازل ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ پہلی وحی کے نزول کے وقت جبرائیل امین نے محمد کو ایک کپڑے کا ٹکڑا عطا فرمایا جس پر کچھ لکھا ہوا تھا، اور کہا کہ پڑھو یا دہراؤ۔
الہام کے نزول کے اوقات کے درمیان محمد پر جو گزری وہ کچھ اس طرح ہے :
گھنٹیوں کے بجنے کی آواز (البخاری جلد نمبر 1، حدیث نمبر 2؛ جلد نمبر 4 ، حدیث نمبر 438)؛ دل کی دھڑکن کا تیز ہوجانا (البخاری جلد نمبر 1 ، حدیث نمبر 3)؛ چہرہ کا سرخ ہوجانا (البخاری جلد نمبر 5؛ حدیث نمبر 618، جلد نمبر 6 ، حدیث نمبر 508) گہری سانسیں لینا ( البخاری جلد نمبر 6، حدیث نمبر 508) ؛ کبھی کبھی وہ اچانک سے نیچے گرجایا کرتا تھا یا لیٹ جایا کرتا تھا (البخاری جلد نمبر 4، حدیث نمبر 461؛ جلد نمبر 5 ، حدیث نمبر 170) ؛ وہ پسینے سے شرابور ہوجایا کرتا تھا (البخاری جلد نمبر 1، حدیث نمبر 2، جلد نمبر 2، حدیث نمبر 544؛ جلد نمبر 3، حدیث نمبر 829) کبھی کبھی انہیں خواب دکھائی دیتے تھے ( البخاری جلد نمبر 1، حدیث نمبر 3؛ جلد نمبر 5، حدیث نمبر 659)
ان تجربات کی بنا پر محمد کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ یا تو وہ آسیب زدہ ہے یا پھر پاگل ہو چلا۔ اس نے اپنی بیوی خدیجہ اور اس کی رشتہ دار ورقہ بن نوفل سے پوچھا کہ یہ سب کیا ہے جس کے جواب میں ان دونوں نے کہا کہ اسے اللہ کی جانب سے الہام وصول ہورہے ہیں ۔
جب کہ جناب مسیح کو جو وحی نازل ہوتی تھی وہ ان کی خدا تعالیٰ کے حضور دعاؤں کا نتیجہ تھی۔ ان کے مخالفین نے ان پر جب یہ الزام لگایا کہ وہ بدارواح کے قبضہ میں ہیں تو انہوں نے اپنی ہی شریعت کی مخالفت کی (انجیل بمطابق یوحنا رسول 7 باب 19 تا 20 آیات)
محمد نامنظور:
ابتدائی ایام میں محمد نے بھرپور کوشش کی کہ کسی طرح یہودیوں کی طرف سے قبولیت کی سند حاصل کرسکے اور اس کے لئے یروشلم کی طرف منہ کرکے دعا اور عاشورہ کا روزہ بھی رکھا کرتا تھا (یوم کفارہ) ۔ لیکن یہودیوں کا عقیدہ تھا کہ جنات سے تعلق رکھنا خلاف ِ شریعت ہے (احبار 20:6) جب کہ محمد کے خدا یعنی اللہ نے بدارواح کی جانب سے محمد کو ان کی مدد حاصل ہوئی (سورۃ 46 اس کی 29 تا 31 آیات)
بعدازاں محمد نے کعبہ کی جانب رخ کرکے دعا کرنا شروع کردی اور یوم عاشورہ کے روزہ کی جگہ رمضان نے لے لی۔
نزول ِ وحی کے وقت محمد وجد کی حالت میں آجایا کرتا، جس کی وجہ سے مکہ میں رہنے والے بہت سے رہائشی یہ ماننے لگے کہ وہ بدارواح کے زیر سایہ ہے یا پاگل ہوگیا جس کا جواب دیا جانا ضروری سمجھا گیا (سورۃ 68:2؛ سورۃ 81 اس کی 22 تا 25 آیات؛ 52:29؛ 34:46)۔ اسی بنا پر وہ اس کا مزا اڑایا کرتے تھے اور حقیر گردانتے تھے ۔ ایسی اور ایسی ہی دوسری وجوہات کی بنا پر، جو زیادہ تر محمد کی بائبل مقدس کے حوالے سے نامکمل واقفیت تھی ، شروع کے 3 سال مفاہمت پسندی سے مبنی گزرے۔ اس قلیل عرصے میں ہی "شیطانی آیات " اور ایسی دوسری آیات ظہور پزیر ہوئیں جن میں غیر مسلمین کو ان کے خداؤں کی پرستش کرنے کی اجازت دی گئی ۔ (سورۃ 109: 1 تا 6 ؛ سورۃ 6 اس کی 106 تا 108 آیات) اس کے برعکس آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جناب مسیح اپنی کتاب مقدس کو مکمل طورپر جانتے تھے اور انہوں نے اپنی مرضی سے اس میں سے قتباسات کا استعمال بھی کیا۔ (متی 4)
رشتہ ازدواج اور محمد:
محمد نے یہ تعلیم دی کہ ایک مسلمان مرد 4 شادیاں کرسکتا ہے بشرطیکہ وہ تمام سے منصفانہ طریقے سے پیش آ سکے ، ورنہ ایک سے زائد شادی نہ کرے (سورۃ 4 اس کی 3 اور 129 آیات) محمد نے چار سے زائد خواتین سے شادیاں کیں لیکن اس کی دوسری زوجہ سوادہ بنت ضماہ سے شادی اس نے خدیجہ کے مرنے کے بعد کی۔ اس نے بہت سی خواتین سے شادیاں کیں جن میں زیادہ تر طلاق یافتہ اور بیوائیں تھیں۔ اس کی سب سے دلاری بیوی عائشہ بنت ابکو بکر سے اس نے تب شادی کی جب وہ صرف 6 سال کی تھی اور شادی کی تکمیل کی وقت اس کی عمر صرف 9 سال تھی۔ دوسری زوجاؤں میں سلمیٰ بنت زنیب بنت جاش، جویریہ بنت الہریت، صفیہ بنت ہوییا، ام حبیبہ ، مریم قطبی ، اور سب سے آخر میں میمونہ بنت ال ہریت سے شادی کی۔
اس کے علاوہ بھی محمد نے دوسری وجوہات کی بنا دیگر خواتین سے شادیاں رچائیں، لیکن ان کی تکمیل نہ کرپائے۔ اس کے علاوہ بہت سے حرمیں اور غلام خواتین سے بھی ان کا تعلق محمد کے عقد میں تھیں، جو زیادہ تر مال غنمیت کا حصہ تھیں۔ وہ اپنی مردانہ طاقت کے لئے اپنے حوارئین میں بہت مشہور تھے ، بلکہ بمطابق ایک حدیث ان میں 30 مردوں کی طاقت تھی!
عورتوں سے متعلق محمد کی تعلیمات:
خواتین سے متعلق ان کے خیالات تحریری صورت میں دستیاب ہیں۔ مثال کے طور پر عدالت میں ایک عورت کی گواہی مردوں کے مقابلے میں آدھی تصور کی جاتی ہے (سورۃ 2:282؛ البخاری جلد نمبر 3، حدیث نمبر 826) عورتیں عقلی لحاظ سے اور مذہبی امور میں کمتر تصور کیجاتی ہیں (البخاری جلد نمبر 1، حدیث نمبر 541) خواتین کو قیمتی دھاتوں مثلاً سونا، چاندی، گھوڑے اور مویشیوں کی طرح مال غنمیت کیطور پر مخاطب کیا گیا ہے (سورۃ 3:14) عورت مرد کے لیے ایک کھیت کی مانند ہے (سورۃ 2:223) مرد اپنی بیویوں کا تبادلہ کرسکتے ہیں (سورۃ 4:20) عورت شیطان کا دوسرا روپ ہے (صحیح مسلم جلد نمبر 11، حدیث نمبر 3240)
محمد اور جہاد:
شروع کے 13 سالوں میں محمد کے پیروکاروں کی تعداد نہایت قلیل تھی (جن میں سے اکثریت غریبوں کی تھی) اسی لئے اسنے کاروانوں اور دیگر کمزور قبائل پر شب خون مارنا شروع کردیئے تا کہ جلد از جلد ضرورتوں کو پورا کیا جاسکے۔ صحرائے عرب میں پڑوسیوں کی جائیداد پر قبضہ کرنا ایک فوری عمل تھا جس کے ذریعے سے کوئی اپنا اثر و رسوخ بڑھا سکتا تھا۔ محمد نے اسے جہاد کا نام دیدیا، اللہ کی راہ میں ایک کوشش، تا کہ اللہ کے ارادہ کی تکمیل ہو اور اللہ کی بادشاہت زمیں پر قائم ہوسکے۔ جس طرح ملک نے اپنی کتاب "جنگ کا قرآنی تصور" (صحفہ نمبر 99-103) میں ذکر کیا ہے ، اگلے 9 سالوں میں محمد نے 81 جنگیں لڑیں اور کئی ایک میں بھرپور حصہ لیا۔
یہودیوں کی جانب سے لگاتار انکار قبولیت کی وجہ سے اس نے انہیں مدینہ سے باہر نکال دیا۔ ان کے مال و متاع کو مسلمانوں میں تقسیم کردیا گیا اور سب سے حسین خواتین کو محمد کے سپرد کردیا گیا۔ جبکہ 600 سے 900 یہودیوں جن کا تعلق بنو قریظہ سے تھا، بدقسمت رہے جنہں ملک بدر کرنے کی بجائے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
نجات اور محمد:
قرآن اور احادیث سے یہ صاف طور پر عیاں ہے کہ محمد ابدی نجات کے حوالے سے پریقین نہیں تھا۔ سورۃ نمبر 46:9 کیمطابق محمد کو یہ کہا گیا تھا کہ وہ عوام الناس کو صاف صاف لفظوں میں یہ بتلادے کہ اسے نہ تو اپنی نجات کا یقین ہے اور نہ ہی کسی دوسرے کی ۔ اسے ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اپنے گناہوں کے ساتھ ساتھ اپنے ماننے والوں کے گناہوں کے لئے دعا کرے (سورۃ 47:19؛ 40:55) ۔ اسی لئے محمد دن میں 70 سے زائد مرتبہ گناہوں کی معافی کے لئے دعا کیا کرے، (البخاری جلد نمبر 8 ، حدیث نمبر 319) اور اس نے ایسا ہی کیا ، یہانتک کے بستر مرگ پر بھی (البخاری جلد نمبر 5، حدیث نمبر 715) باوجود اس کے اتنی شدید اور متواتر دعاؤں کے ، محمد کو کبھی بھی اپنی نجات کے حوالے سے یقنین دہانی نہ ہوسکی اور نہ ہی اپنے رشتہ داروں کی (صحیح مسلم جلد نمبر 1، حدیث نمبر 398-402)
یہ جناب مسیح کی چھوڑی ہوئی وراثت کے بالکل برعکس ہے۔ انجیل بمطابق یوحنا 3:16 میں صریحاً ذکر کردیا گیا ہے کہ خدا نے دنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اس نے اپنا پیارا بیٹا بخش دیا تا کہ جو اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔ جناب مسیح کے ماننے والے کے لئے ابدی نجات یقینی ہے جبکہ محمد کے پیچھے چلنے والے اس یقین دہانی سے محروم ہیں۔
اسلامی روایات کے مطابق محمد مثل تقلید ہیں جبکہ انہوں نے اللہ کی راہ میں بیشمار جنگیں لڑیں اور متواتر اپنے گناہوں کی معافی کا طلبگار رہا ، انہیں اللہ کی جانب سے بہشت میں اپنے مقام کے لئے کوئی یقین دہانی نہیں تھی۔
اس کے برعکس مسیح خداوند کے سچے ماننے والے کے لئے خدا تعالیٰ کی حضوری میں 100٪ نجات موجود ہے ۔ افسیوں کے خط میں موجود شہادت 1:7 اس طرح سے بیان کرتی ہے ، "ہم کو اس میں اس کے خون کے وسیلے سے مخلصی یعنی قصوروں کی معافی اس کے اس فضل کی دولت کے موافق حاصل ہے۔ "
فرق تو صاف ظاہر ہے ، یہ جناب مسیح کا کفارہ ہے جو اسلام میں موجود نہیں۔ محمد اپنی وراثت میں جنگ و جدل چھوڑ گیا ، جبکہ ایک یسوع مسیح پر ایمان رکھنے والا ایک ایماندار جناب مسیح کی نجات بخشنے والے کامل کفارہ پر انحصار کرتا ہے۔ قارئین ہم سے التجا کرتے ہیں کہ آپ جناب مسیح کے بارے میں ضرور سوچیں!