صراط مستقیم
بعض اوقات اپنی مصروف زندگی میں یہ بات بھول جاتے ہیں ، کہ ہم زندگی کے اس سفر میں انتہائی معمولی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ ابدیت بھی کوئی چیز ہے اور ایک خدا جس کو ہم جوابدہ ہیں۔ روزِ عدالت میں فردوس میں جانے کے لئے آپ کس پر بھروسہ کرسکتے ہیں؟آپ کہاں ہونگے؟ جس سفر پر آپ گامزن ہیں، بآلاخر آپ کو جنت یا دوزخ کی جانب لیجائیگا۔ کیونکہ لکھا ہے '
" اور اگر آدمی ساری دنیا حاصل کرے اور اپنی جان کا نقصان اٹھائے تو اسے کیا فائدہ ہوگا؟یا آدمی اپنی جان کے بدلے کیا دیگا؟ (متی 16:26)
ہم سب گنہگار ہیں:
اسی لیئے اللہ تعالی نے محمد کو تنبیہ کی کہ وہ اپنے اور دوسروں کے گناہوں کے لئے معافی مانگے۔ سورۃ 47 اس کی 19 آیت
فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَمَثْوَاكُمْ ترجمہ: پس جان رکھو کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو اور (اور) مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لئے بھی۔ اور خدا تم لوگوں کے چلنے پھرنے اور ٹھیرنے سے واقف ہے ۔
ہم سب گنہگار ہیں:
اسی لیئے اللہ تعالی نے محمد کو تنبیہ کی کہ وہ اپنے اور دوسروں کے گناہوں کے لئے معافی مانگے۔ سورۃ 47 اس کی 19 آیت میں یوں مرقوم ہے:
فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَمَثْوَاكُمْ ترجمہ: پس جان رکھو کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو اور (اور) مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لئے بھی۔ اور خدا تم لوگوں کے چلنے پھرنے اور ٹھیرنے سے واقف ہے ۔
صحیح البخاری جلد 8، 407اور صحیح البخاری 319 جلد نمبر 8 کا ضرور مطالعہ فرمائیں۔
محمد از خود یہ بات جانتا تھا کہ فرمانبرداری پر تکیہ کر کے جنت میں داخل ہونا ناممکن ہے۔ ہم قرآن میں پڑھتے ہیں (سورۃ 46 اس کی 9آیت )
قُلْ مَا كُنتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ وَمَا أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُّبِينٌ
کہہ دو کہ میں کوئی نیا پیغمبر نہیں آیا۔ اور میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا (کیا جائے گا) میں تو اسی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر وحی آتی ہے اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔
اور صحیح البخاری حدیث نمبر 266 جلد نمبر 5 میں بھی ہے۔
محمد آپ کو نہیں بچانے پر قادر نہیں:
قرآن میں لفظ ، نجات دہندہ کہیں بھی وارد نہیں ہوا۔ اگر کسی ڈوبتے کو بچانا مقصود ہو تو بچانے والے کو تیرنا آنا چاہئے، صرف ہاتھ پیر چلانا نہیں بلکہ اچھی طرح سے تیرنا آنا چاہئے کیونکہ یہ دونوں کے لئے ضروری ہے ۔ اوپر بیان کئے گئے حوالہ جات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ محمد تیرنے کے قابل نہیں تھا اس لئے وہ آپ کو بھی نہیں بچا سکتا۔
جب ہم سورۃ 26 اس کی آیت نمبر 214 کا مطالعہ کرتے ہیں جہاں یہ لکھا ہے کہ " " کو خبردار کرو، تو ہم پر یہ عیاں ہو جاتا ہے کہ محمد سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو خبردار کرے۔ آئیے اس آیت کو سمجھنے کے لئے صحیح مسلم کی حدیث 398 اور 402 ، جلد نمبر 1 کا مطالعہ کریں
(کتاب انوار الجندی –میزان السلام کا صحفہ 170 پڑھنے کے قابل ہے۔)
محمد لوگوں کو کہتا ہے کہ جہنم کی آگ سےبچنے کے لئے انہیں خود ہی کوئی اہتمام کرنا ہوگا۔ اور ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ محمد خود کو بچانے کا اہل نہیں تھا ، کیونکہ وہ خود بھی ںہیں جانتا کہ اللہ اس کے ساتھ کیا سلوک روا رکھے گا۔
کون بیگناہ ہے، کون بچا سکتا ہے؟
قرآن کے مطابق یسوع بیگناہ تھا:انہوں نے کہا کہ میں تو تمہارے پروردگار کا بھیجا ہوا (یعنی فرشتہ) ہوں (اور اس لئے آیا ہوں)کہ تمہیں پاکیزہ لڑکا بخشوں۔ (سورۃ 19:19) عیسی مسیح اور ان کی والدہ شیطان کے لمس سے محفوظ رہے۔ (3:36)
اور بائبل مقدس میں لکھا ہے کہ " کیونکہ ہمارا ایسا سردار کاہن نہیں جو ہماری کمزوریوں میں ہمارا ہمدرد نہ ہو سکے بلکہ وہ سب باتوں میں ہماری طرح آزمایا گیا تو بھی بیگناہ رہا۔ " (عبرانیوں 4:15-16)
اسی لئے جنابِ یسوع مسیح خاصکر انہیں جو ان کے ذریعے سے خدا تعالی تک رسائی حاصل کرتے ہیں بچانے پر قادر ہیں ، کیونکہ بمطابق عبرانیوں کے نام خط 7:25 آیت میں یوں لکھا ہے ، " اس لئے جو اس کے وسیلہ سے خدا کے پاس آتے ہیں وہ انہیں پوری پوری نجات دے سکتا ہے کیونکہ وہ انکی نجات کے لئے ہمیشہ زندہ ہے ۔ "
خود قرآن کی گواہی یہ ہے کہ یسوع ، کلمتہ اللہ اور خدا کی روح ہیں، (دیکھئے سورۃ 3:45؛ 4:171؛ 19:34؛ 21:91) وہ اعلی مرتبہ پر فائز ہیں۔ خدا تعالی نے اپنے کلمہ کے ذریعے سے ہی سب کچھ تخلیق کیا۔ (دیکھئے، سورۃ 2:117؛ 3:47 اور 3:49؛ 6:73؛ 16:40؛ 19:35؛ 36:82؛ 40:68) خود بائبل مقدس بھی اس بات کی تائید کرتی ہے (دیکھئے زبور 33:6) اسی لئے، کلمہ نہ صرف تخلیق کے عمل میں کارفرما ہے بلکہ ازلی بھی ہے۔ علاوہ ازیں کلمتہ اللہ کے متعلق بائبل مقدس کا فرمان ہے ، " ابتدا میں کلام تھا، کلام خدا کے ساتھ تھا ، کلام خدا تھا، (انجیل بمطابق یوحنا رسول 1:1)
اس سے پہلے کہ آپ یہ کہیں کہ بائبل مقدس بدل سکتی ہے آپ ذرا سوچئیے: کیا ایک خاکی و فانی انسانی قادر مطلق کے کلام کو بدل سکتا ہے؟ اس سے پہلے کہ آپ یہ کہیں کہ مسیحی تین خداؤں کو مانتے ہیں؛ آپ کو چاہئے کہ آپ یہ سوال پوچھیں، کہ کیا مسیحی واقعی تین خداؤں کو مانتے ہیں ؟ کیا آپ نے کبھی بائبل مقدس کا مطالعہ فرمایا ہے؟ جب تک قصور ثابت نہ ہوجائے، ہر مشتبہ شخص معصوم ہے!
بائبل مقدس میں نجات:
لیکن خدا اپنی محبت کی خوبی ہم پر یوں ظاہر کرتا ہے کہ جب ہم گنہگار ہی تھے تو مسیح ہماری خاطر موا۔ (رومیوں کے نام پولوس رسول کا خط 5:8)
اگر تو اپنی زبان سے یسوع کے خدانوند ہونے کا اقرار کرے اور اپنے دل سے ایمان لائے کہ خدا نے اسے مردوں سے جِلایا تو نجات پائیگا۔ (رومیوں کے نام پولوس رسول کا خط 10:9)
لیکن جتنوں نے اسے قبول کیا اس نے انہیں خدا کے فرزند ہونے کا حق بخشا، یعنی انہیں جو اس کے نام پر ایمان لاتے ہیں۔ (انجیل بمطابق یوحنا رسول 1:12)
یسوع نے کہا ، " راہ اور حق اور زندگی میں ہوں۔ کوئی میرے وسیلہ کے بغیر باپ کے پا س نہیں آتا " ( انجیل بمطابق یوحنا رسول 14:6)
گو کہ ہم گناہ کی پستیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں ، پاک خدا کے حضور قصور وار ہیں خدا تعالی ہم سے بہت زیادہ محبت کرتاہے، بلکہ مسیح کلمتہ اللہ، ہماری طرح انسان کی صورت میں بھیج کر اور کرکے جب ہم خدا کے مخالف تھے اور فقط گنہگار ہی تھے، ہماری جگہ مصلوب ہو کر ہمارے گناہوں کا کفارہ ادا کرکے، محبت کی انتہا کردی۔ اس نے یہ ہمارے لئے کیا ۔ اس نے اپنی مرضی صلیب پر جان دیکر ہمارا فدیہ ادا کیا، " کیونکہ گناہ کی مزدوری موت ہے ، مگر خدا کی بخشش ہمارے یسوع مسیح میں ہمیشہ کی زندگی ہے" ۔ (پولوس رسول کا خط رومیوں کے نام 6:23)
ہمارے گناہوں کی سزا موت ہے، لیکن یسوع، ازلی کلمتہ اللہ ، بیگناہ ہوئے ہوئے اس دنیا میں اس لئے آیا کہ ہمارے گناہوں کا ازالہ ہو سکے۔ اگر جناب ِ مسیح صرف بیگناہ اور ایک رسول ہی ہوتے تو زیادہ سے زیادہ صرف ایک انسان کے لئے ہی جان دیتے۔ لیکن ازلی کلمتہ اللہ ہونے کی حیثیت سے ان کی قربانی تمام بنی نوع انسان کے گناہوں کی قیمت ادا کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ وہ تحفہ کے طور پر ہمیں ہمیشہ کی زندگی عطا کرتے ہیں تا کہ ہم ہمیشہ تک ان کی رفاقت سے فیض اٹھا سکیں۔
یسوع نے صلیب پر ہمارے گناہوں کے عوض جان دی اور تیسرے دن مردوں میں سے زندہ ہو کر موت پر ایک تاریخی فتح حاصل کی، لیکن ہم میں سے ہر ایک کو یہ مفت بخشش حاصل کرنے کے لئے فیصلہ خود کرنا ہے۔ اگر آپ اس بخشش کو وصول کرنے سے انکار کرتے ہیں تو آپ اس بخشش سے فیضیاب ہونے کے اہل نہیں رہتے ۔ تحفہ دیا جاتا ہے ، اسے کمایا نہیں جاسکتا۔ اوربخشنے والے کو یہ حق حاصل ہے کہ اگر آپ کسی طرح سے ان کے تحفے کی قیمیت ادا کرنا چاہیں تو وہ اپنی ناراضگی کا برملا اظہار کر سکے۔ خدا آپ کا قرض خواہ نہیں ہوسکتا! خدا صرف یہ چاہتا ہےکہ آپ ازراہ عقیدت یہ تحفہ صدقِ دل سے قبول کرلیں۔
اپنے منہ سے یہ اقرار کرنا کہ یسوع مسیح خداوند ہے سھے مراد ہے کہ :
1۔ آپ گہنگار ہیں اور موت کے سزاوار ہیں
2۔ آپ جہنم کی آگ سے از خود بچ نہیں سکتے
3۔ خداوند یسوع مسیح نے صلیب پر جان دیکر اپنے قیمتی خون کے ذریعے سے آپ کے گناہوں کا کفارہ ادا کیا۔
4۔ آپ کے لئے ضروری ہے کہ آپ یسوع مسیح کو اپنا نجات دہندہ اور خداوند قبول کریں۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ خداوند یسوع مسیح پر ایمان کے ذریعے سے اپنے گناہوں کی معافی حاصل کریں تو آپ کو صرف اپنا دل ان کے لئے کھولنا ہوگا، اور خدا سے سادہ لفظوں میں یہ کہنا ہوگا، جیسے کہ :
اے خداوند یسوع! میں جانتا ہوں کہ میں گنہگار ہوں، اور مانتا ہوں کہ میرے نیک اعمال میرے گناہوں کو دھو نہیں سکتے اور میں آپ کو اپنا خداوند اور نجات دہندہ قبول کرتا/کرتی ہوں۔ آپ اپنے پاک خون کے ذریعے سے میرے گناہوں کو دھو دیجیئے اور اس قابل بنائے کہ آپ کی بتلائی ہوئی راہوں پر چل سکوں۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے وہ راستہ فراہم کیا کہ میں آپ کے قریب آسکوں۔ آمین