en-USur-PK
  |  
25

صلیب کو حملہ خیال کیا جائے یابرکت؟

posted on
صلیب کو حملہ خیال کیا جائے  یابرکت؟

?IS THE CROSS AN OFFENSE OR A BLESSING

    صلیب کو حملہ خیال کیا جائےیا برکت؟

 

اسلام نے اور مسیحیت نے اس سوال کا جواب کہ " کیامسیح کی صلیب کوئی تاریخی حقیقت ہے جسے مان لینا چاہیے ! یایہ ایک غلط فہمی ہے جسے رد کرنا چاہیے "۔ الگ لگ طور سے دیا ہے۔ جناب مسیح کی موت اوراُن کے انجام پر ان دونوں مذہبوں کے الگ الگ عقیدے ہیں۔ حقیقی سوال تویہ ہے کہ آیا مسیح صلیب پر مرگئےتھے ۔ جیسا کہ انجیل کا دعویٰ ہے یا ان کے آخری ایام کسی اور طرح سے گذرے جیسا کہ اسلام کی تعلیم ہے۔مثلاً قرآن شریف میں یہ عبارت ملتی ہے۔

يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ

"اے عیسیٰ میں(اللہ) تجھے وفات دینے اور تجھے اپنی طرف اٹھانے جارہا ہوں"۔

(سورہ آل عمران 3: 55)۔

                        علماۓ اسلام اس آیت کے معنی الگ الگ لیتے ہیں اورباہم کسی ایک بات پر متفق نہیں ہیں۔مثلاً ایک گروہ وہ یہ کہتاہے کہ (متوفیک)کامطلب یہ ہے کہ عیسیٰ سوگئے تھے اوراسی حالت میں آسمان پر اٹھالئے گئے تھے۔

                        دوسری جماعت کہتی ہے کہ مُتَوَفِّيكَ کا مطلب ہے پُورا حصہ وصول کرنا ۔ تیسرے گروہ کے علماء یہ مانتے ہیں مُتَوَفِّيكَ  کا مطلب ہے" میں تجھ پکڑنے والا ہوں"۔ کچھ کا خیال ہے کہ تاوقتیکہ دجال ومخالف مسیح مرنہ جائے" آپ نہیں مرینگے ۔ پھر کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ نہیں بلکہ مسیح حقیقت میں صلیب پر مرگئے تھے۔

                        اب چونکہ مسلم علماء باہم اہم زبان نہیں ہیں بلکہ الگ الگ مطلب لے رہے ہیں اس لئے انجیل مقدس کی طرف رجوع کیا جائے۔

                        انجیل کے سارے بیانات باہم متفق ہیں ۔ مسیح کا صلیب پر مرجانا ایک ایسا اہم واقعہ ہے جس پر کئی اہم باتوںکا مدار وانحصار ہے۔مثلاً ایمان۔مغفرت۔ نجات ۔انسان کا حشرونشر اورآخری انجام اورانسانی تاریخ کی معنویت سب اس کے جواب پر منحصر ہے۔

                        انجیل مقدس کا بیان ہے کہ:

                        مشیت الہٰی کے عین مطابق اور گذشتہ الہامی مقدس نوشتوں کی پیشینگوئیوں کے عین موافق مسیح ہمارے گناہوں کی خاطر مارے گئے ۔ دفن کئے گئے لیکن تیسرے دن وہ پھر زندہ کردئیے گے۔

                        یہ وہ بنیادی مسیحی پیغام تھا جسے مسیح کے شاگردوں اورحواریوں نے خوشخبری "انجیل" کی صورت میں مسیحیت کی اولین صبح سے ہی دیناشروع کردیا تھا کیونکہ وہ سارے کے سارے اس حادثہ صلیب اور جی اٹھنے کے بالکل عینی گواہ تھے۔

                        اب اسلام کی طرف نظر کریں توصلیب کے خلاف ایک نفرت دکھائی دیتی ہے اور شدید ردعمل ملتاہے۔ دراصل عرب میں رہنے والے کچھ بدعتی گروہ کی وجہ سے یہ پیدا ہوا تھا۔ جونظریہ تشابہ کے ماننے والے تھے یعنی یہ کہ صحیح انجیلی بیانات کی جگہ وہ مسیح کی صلیبی موت کے واقعہ کوبیان کرنے میں کچھ اورکہانیاں سنایا کرتے تھے۔

                        حقیقت کیا ہے یہ جاننے کے لئے آئیے ہم تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کریں۔ تاریخ میں ہمیں یہ ملتا ہے کہ مسیح کے ماننے والوں میں شروع ہی سے یہودی بھی تھے اور رُومی بھی تھے۔

                        یہ دونوں گروہ مومنین اس بات پر متفق تھے کہ مسیح کی موت صلیب پر ہوئی ہے جس کا فتویٰ یہودی بڑی مجلس نے دیا تھا اورجسے رومی حاکم پنطس پیلاطوس نے عملی جامہ پہنایا تھا اورجسے رومی سپاہ نے سرانجام دیا تھا۔ مسیح سے دشمنی اوراختلاف رکھنے والے اس وقت صلیب پر لٹکے مسیح کا مذاق اڑارہے تھے۔

                        جان نکل جانے کے بعد مسیح کو چٹان میں تراشی ہوئی ایک قبر میں رکھ دیا گیا تھا اورحاکم وقت کی سرکاری مہربھی اس قبر پرلگادی گئی تھی۔ یہ سب احتیاط کرچکنے کے بعد اب دشمن مطمئن ہوکر یہ سمجھ کر بیٹھ گئے تھے کہ مسیح اورمسیح کی ساری تعلیموں سے اب چھٹکاراملا! لیکن اللہ وتبارک تعالیٰ کی قدرت اورمرضی اپنا کام کررہی تھی۔

                        پروردگارِ عالم نے تیسرے دن مسیح کو پھر زندہ کیا جس کا اثر یہ ہواکہ ہزار ہا لوگ یہودی وروُمی اوردیگر قوموں کے مسیح پر ایمان لے آئے۔اُنہوں نے مسیح کی اس پیشین گوئی کوپوری ہوتے ہوئے دیکھا جسے خود مسیح نے اپنے مصلوب ہونے سے پیشتر بیان کیا ہی تھا کہ میں اگرزمین سے اونچے پراٹھایا جاؤں گا توسب کواپنے پاس کھینچوں گا۔(انجیلِ عیسیٰ پارہ یوحنا رکوع 12آیت 32)۔

                        زندہ ہوجانے کے بعد آپ چالیس دنوں تک مسلسل اپنے حواریوں اورشاگردوں پر ظاہر ہوئے کھاتے پیتے اور تعلیم دیتے رہے تھے تب جاکر آپ آسمان کی طرف اٹھالئے گئے اوراب پروردگارِ عالم کے مقرب بن کر اُن کے دہنے ہاتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔

                        یہ سب کچھ مسیح نے اسلئے کیا تھا کہ گنہگارانسان خدا کی اس رحمت ومحبت پرایمان لاکر مغفرت پائے جومسیح کی صلیب کے ذریعہ خدا تعالیٰ ظاہر کرنا چاہتا تھا۔ حضرت یحییٰ نے اسی لئے آپ کو خدا برہ  کہا جو انسان کے گناہوں کواٹھالے جاتاہے۔اس لئے مسیح کی اس صلیبی موت کا انکار کرنا اس حقیقت تاریخ کا انکار کرناہے جسکی گواہی خود کثیر عینی شاہدوں نے دی ہے۔

                        دوستو! تاریخ کی اس حقیقت کواپنے قیاس آرائی اورخیالوں کی نظر سے دیکھنا چھوڑ دو اور حقیقت کومان لو کیونکہ صرف اسی پر ایمان لے آنے سے گناہوں اوراُسکے اثرات بد سے نجات مل سکنے کی اُمید ہے!

                        یسعیاہ نبی نے خدا کا یہ پیغام دنیا کوسالہاسال پیشتر ہی دے دیا تھا کہ:

                        "خوف نہ کر کیونکہ میں نے تیرا فدیہ دیاہے میں نے تیرانام لے کر تجھے بلایا ہے تومیرا ہے۔

(صحیفہ حضرت یسعیاہ رکوع 43آیت 1)۔

اگر  آپ انجیل وقرآن میں صلیب" کے حوالے سے مزید پڑھنا یا سننا چاہتے ہیں توہماری ویب سائٹ پر آپ کو بہت سی کتب اور خطبات سننے کو ملیں گے جوآپ کی بہت راہنمائی کریں گے۔

Posted in: مسیحی تعلیمات, یسوع ألمسیح, نجات | Tags: | Comments (0) | View Count: (20243)
Comment function is not open
English Blog