Resurrection of Christ
قیامت مسیح
” وُہ یہاں نہیں بلکہ جی اُٹھا ہے!“
( بقلم جناب لائڈ آر۔ ڈے صاحب ؔ)
اِس حقیقت کا احساس کہ مسیح خُداوند جس کے ہم ناچیز خادِم ہیں، مُردہ نہیں بلکہ زندہ ہے۔ ہمارے لئے کیسا راحت افزا اور دُور پرور ہے! تمام دیگر مذاہب کے پیغمبر اور بانی مُردہ ہیں۔ اُن کے لاشے زیرِ خاک مَدفوُن اور اُن کے مزار آج بھی ہمارے درمیان مَوجُود ہیں۔ لیکن خُدا کا شکر ہے کہ خالی قبر پر دو قُدسیِوں کا یہ اعلان کہ ” وُہ یہاں نہیں ہے بلکہ اپنے کہنے کے مُطابق جی اُٹھا ہے۔ آؤ، یہ جگہ دیکھو جہاں خُداوند پڑا تھا“ صدیوں سے ہمارے کانوں میں گوُنج رہا ہے اور ہماری آس بڑھاتا اور ہمیں ہمّت دلاتا ہے۔ کہ ہم ایک مسیحیِ کی زندگی دوڑ کے انجام کا اپنی آنکھوں نظارہ کریں اور آگے قدم برھائے چلیں۔ ہمارے دل اِس احساس کے لئے حمد اور شکر گزاری سے لبریز ہیں کہ ہمارا نجات دہندہ اِس وقت آسمان میں خُدا کے دہنے بَیٹھ کر ہماری شفاعت فرما رہا ہے اور ہم کمال خلُوص اور صدق دلی کے ساتھ یہ نغمہ گا سکتے ہیں۔ ؎
ارض ع سما کا مالک و مُختار جی اُٹھا سارے جہاں کا آج فِدا کار جی اُٹھا
آؤ چلیں خوشی کی خبر بھائیوں کو دیں دے کر شکست مَوت کو سردار جی اُٹھا
دو دِن کے بعد مُوت کا مُنہ زرد پڑ گیا شاہِ حیات مار کے للکار جی اُٹھا
مرؔیم صِفت جہاں کو تُم اخؔتر یہ دو نوید کُل عاصیوں کا مُونس و غمخوار جی اُٹھا
خُدا کا بیٹا جیِنے کے لئے نہیں بلکہ مرنے کے لئے پَیدا ہُوا تھا اور اُس کی مَوت کے وسیلہ سے بنی نوع اِنسان کو کاِمل نجات کی بخشش مُیسّر آئی ہے۔ شاگردوں کے لئے وُہ گھڑی نہایت ہی مُہیب اور تاریک تھی جب اُنہوں نے اُسے انتہائی بے دردی سے صلیب پر لٹکا دیکھا۔ اُن کے دِل اندرُون سیِنہ ڈُوب ہی تو گئے ہوں گے جب اُنہوں نے اُسے خدا اور انسان کے درمیان اُوپر اُٹھا ہوُا دیکھا ہو گا۔ لعن طعن گالی گلوچ کی بوچھاڑ براعدا نے اُس پر کی، اُن کی ہمّت ِبرداشت سے باہر تھی۔ کیا وُہی نہ تھا۔ جِس کی خاطر وُہ اپنا سب کُچھ تیاگ کر اُس کے پیچھے ہو لئے تھے؟ اَب وُہ صلیب پر اپنی جان ٹوڑ رہا تھا اور سارا جہّنم مارے ناپاک خُوشی کے ناچتا نظر آتا تھا! لیکن کیا یہی اُس کا واِحد مقصد نہ تھا جِس کے لئے وُہ مبعُوث ہُوا تھا ؟ وہ خِدمت لینے نہیں بلکہ خِدمت کرنے اور بہتوں کے لئے اپنی جان فدیہ میں دینے آیا تھا! أب وہ صلیب پر میخوں سے جکڑا ہُوا لُہو لہان ہو رہا ہے اور بظاہر بیچارگی اور کس مپرُسی کی حالت میں مر رہا ہے ! شاگرد اپنے اُستاد کا فرموُدہ پہلے ہی فراموش کر چُکے تھے ” میرا جانا تمہارے لئے فائدہ مند ہے“۔ کائفاؔ نے بھی کہا تھا۔ ” تم کچھ نہیں جانتے اور نہ سوچتے ہو کہ تمہارے لئے بہتر ہے کہ ایک آدمی اُمّت کے واسطے مرے ، نہ کہ ساری ہلاک ہو“ اُن کے خیالات مُنتشر اور پراگندہ تھے۔ اُن کے دل ٹوٹ چُکے تھے۔ اُن کی اُمید اُن سے رُخصت ہو چُکی تھی۔ آہ ! یسوؔع اَب مَر چُکا تھا ! اُنہوں نے اُس کے اور اُس کی بادشاہی کے متعلق جو پہلے سے اُمیدیں باندھ رکھی تھیں، سب اُن کے قدموں پر خاک میں مِل گئیں۔ اب اَور زیادہ اُس سے واسطہ رکھنا بے سُود تھا۔ بیکار تھا ! چنانچہ رنج و غم سے نڈھال اپنے سر خمیدہ کئِے وُہ اُسے رہیں چھوڑ کر اپنے گھروں کو سُد ھارے۔
یُوسفؔ ارمتیائی اور نیکدیؔمس نے جو پہلے کبھی یسُوؔع کے پاس رات کے وقت گیا تھا، یسُوؔع کی نعش ِمبارک کو صلیب سے اُتار کر خوشبُو دار چیزوں کے ساتھ سُوتی کپڑے میں کفنایا اور ایک نئی قبر میں دفن کر دیا اور قبر پر بہ طریق احسن مُہر لگ جانے کے بعد وُہ بھی بچشم گریاں نہایت بیدلی کے ساتھ اپنی اپنی رہائش گاہوں کو چل دئیے۔
وُہ وقت نہایت پرُغم اور اُداسی کا تھا اِس لئے کہ وُہ خاص شخص جِس پر شاگرِدوں نے اعتماد کیا تھا، اَب مصلوُب ہو کر دفن ہوچُکا تھا ! اور بِلا ریب و شک لوگ آپس میں چہ میگوئیاں کر رہے تھے کہ اَب اُس کے شاِگرد کیا نیا قدم اُٹھائیں گے۔ وُہ وقت گریہ و ماتم کا تھا۔ ہائے وُہ ماُیوس اور دل شکستہ تھے!
مریمؔ مگدلینی اپنے اُلوہیّت مآب اُستاد کی وفا شعار چیلی، اَیسے تڑکے کہ ابھی اندھیرا ہی تھا ، قبر پر آئی۔ صُبح کے دُھند لکے اور ٹھنڈے وقت ، اپنے خیالات میں غرق وُہ اُس جگہ پُہنچی جہاں یسُوعؔ کو رکھا گیا تھا اور ٹھِٹھک کرہی تو رہ گئی جب اُس نے دیکھا کہ پتھرّ قبر کے منُہ سے لُڑھکا ہوُا ہے۔ وُہ فوراً لوَٹ کر بعُجلت تمام پؔطرس اور یوُحناؔ کو بتلانے دوڑی گئی کہ خداوند کی لاش کو کوئی شخص نکال لے گیا ہے۔ وُہ فوراً بھاگم بھاگ قبر پر آئے اور جیسا اُنہیں اُس نے کہا تھا، وَیسا ہی پایا۔ پؔطرس ن قبر کے اندر جا کر دیکھا کہ سُوتی کپڑے پڑے ہیں اور رُومال جو اُس کے سر سے بندھا ہوُا تھا، ایک جگہ الگ پڑا ہے لیکن یُسوعؔ کی لاش وہاں نہیں ! وُہ حَیران ہو کر رہ گئے اور بالکل نہ سمجھ سکے کہ یہ ماجرا کیا ہے۔ چنانچہ وُہ دُوسرے شاگردوں کو جو کچھُ اُنہوں نے دیکھا تھا ، بتلانے کے لئےاپنے گھروں کو واپس گئے۔
لیکن مرؔیم مگدلینی باہر قبر کے پاس کھڑی روتی رہی اور جب اُس نے جُھک کر قبر کے اندر نظر کی تو دو فرشتوں کو بُراّق لباس پہنے، ایک کو سرہانے، دُوسرے کو پنیتا نے، بیٹھے دیکھا جہاں یُسوعؔ کی لاش پڑی تھی۔ فِرشتوں نے اُسے کہا ” اَے عورت تو کیوں روتی ہے ؟“ اُس نے جواب دیا ” اِس لئے کہ میرے خُداوند کو اُٹھا لے گئے ہیں اور میں جانتی نہیں کہ اُنہوں نے اُسے کہاں رکھا ہے؟“ یہ کہ کر وُہ پیچھے پھری اور یِسوُع ؔ کو کھڑے دیکھا اور نہ پہچانا کہ یہ یسوُعؔ ہے۔ یسُوؔع نے اُسے کہا۔ ” اَے عورت تو کیوں روتی ہے؟ کس کو ڈھونڈتی ہے؟“ اور مریم مگدلینیؔ نے اُسےباغبان سمجھ کر اُس سے کہا ” جناب ، اگر آپ نے اُسے یہاں سے اُٹھایا ہے تو مجھے بتایئے کہ اُس کہاں رکھاّ ہے تاکہ میں اُسے لے جاؤں“۔ یُسوع نے اُس کہا ”مریم“ وُہ فوراً اُس کی آواز پہچان گئی اور بولی ”ربوُّنی“۔ وُہ یُسوعؔ تھا۔ جسے وُہ ڈھونڈ رہی تھی ! وُہ اُس کے قدم چومنے ہی کو تھی کہ یُسوعؔ بولا ” مجھے نہ چُھو کیونکہ میَں اَب تک اپنے باپ کے پاس اُوپر نہیں گیا لیکن میرے بھائیوں کے پاس جا کر اُن سے کہ کہ میں اپنے باپ اور تُمہارے باپ اور اپنے خدا اور تُمہارے خُدا کے پاس اُوپر جاتا ہوُں“۔
مریؔم پھر شاگردوں کو خبر دینے دوَڑی گئی کہ اُس نے خداوند کو دیکھا ہے۔
وُہ اُسی روز شام کے وقت دُوسرے شاگردوں کو بھی دکھائی دیا اور اُنہوں نے اُس کا یقین کیا۔ اُن کے غمگین اور شکستہ دِلوں میں خوشی کی ایک نئی لہرَ دوڑ گئی۔ ہاں اُن کا مسیح جو مر گیا تھا لیکن اَب پھرِ زندہ ہو گیا!
دو یا تین گواہون کے مُنہ سے سچ ثابت ہو جاتا ہے لیکن دو شاگردوں کو تو آماؤس کی راہ پر ملا۔ وُہ پطرس کو نظر ایا اور بھی کئی لوگوں نے اُسے دیکھا اور بولتے بھی سُنا۔
” وُہ یہاں نہیں بلکہ جی اُٹھا ہے“۔ صدیاں بیت گئیں، آج بھی ہم سب کے لئے عید قیامت کا پیغام یہی ہے۔ اِن اَیاّم میں ہم ایک قبر میں کسی مدفون مسیح کی پرستش نہیں کرتے اور نہ ہی ہم مسیح کی خالی قبر کی پُوجا کرتے ہیں بلکہ ہم تو قبر سے زندِہ شُدہ مسیح کے پرستار ہیں۔ الحمدُاللہ ! کیا ہمنے اِس فرحت زا پیغام کے ! یہ شاندار رئیت ہماری زندگیوں میں کیسی اُمید، کیسی ہمّت ڈالتا ہے!
اوّلاً:۔ مسیح کی قیامت ہمیں موت پر فتح بخشتی ہے۔ بنی نوع انسانی بابا آدم اور اماں حواّ کے گنا ہ ، روُحانی اور جسمانی مَوت لانے کا موُجب بنا لیکن مسیح کی موت اور قیامت کُل ایمانداروں کے لئے رُوحانی اور جسمانی زندگی لاتی ہے۔ ”جیسے آدم میں سب مرتے ہیں ویسے ہی مسیح میں سب زندہ کئے جائیں گے“۔
ثانیاً: ۔ یُسوع مسیح کی قیامت قبر پر فتح دیتی ہے۔ ہمارے المناک تجربوں میں غالباً ایک بدترین تجربہ یہ بھی ہوُا ہوگا۔ جب ہم نے اپنے کسی عزیز کی لاش کو خالی قبر مین سُپردِخاک کیا ہو۔ لیکن عزیزو، ہمارا وُہ عزیز قبر میں نہیں ہے۔ ہم محض اُس کے مرتےجسم کو اپنے سے الگ کر دیتے ہیں اور اگر وُہ ہمارا عزیز اپنی زندگی میں خُدا کا تجربتی رہا ہو گا تو ہم اُن لوگوں کی طرح ماتم نہیں کرتے جو بے اُمید ہیں بلکہ ہم خوش ہوتے ہیں۔