en-USur-PK
  |  
11

قیامت مسیح

posted on
قیامت مسیح

Resurrection of Christ

قیامت مسیح

” وُہ یہاں نہیں بلکہ جی اُٹھا ہے!“

( بقلم جناب  لائڈ آر۔ ڈے صاحب ؔ)

اِس حقیقت  کا  احساس کہ مسیح  خُداوند  جس کے  ہم ناچیز  خادِم ہیں،  مُردہ نہیں بلکہ زندہ ہے۔ ہمارے لئے کیسا راحت افزا      اور دُور پرور ہے! تمام دیگر مذاہب  کے پیغمبر  اور  بانی مُردہ  ہیں۔  اُن کے لاشے زیرِ خاک   مَدفوُن  اور اُن کے مزار آج   بھی  ہمارے درمیان  مَوجُود ہیں۔  لیکن خُدا کا شکر ہے کہ  خالی قبر پر دو قُدسیِوں  کا یہ اعلان کہ ”  وُہ یہاں  نہیں ہے بلکہ اپنے کہنے کے مُطابق   جی اُٹھا ہے۔ آؤ، یہ جگہ  دیکھو جہاں خُداوند  پڑا تھا“ صدیوں سے ہمارے  کانوں میں گوُنج رہا ہے   اور ہماری  آس بڑھاتا اور ہمیں  ہمّت  دلاتا  ہے۔ کہ  ہم ایک  مسیحیِ  کی زندگی دوڑ کے انجام  کا اپنی  آنکھوں   نظارہ کریں  اور آگے قدم برھائے چلیں۔  ہمارے دل اِس احساس  کے لئے  حمد اور شکر گزاری  سے لبریز ہیں  کہ ہمارا نجات  دہندہ اِس  وقت آسمان  میں خُدا کے دہنے بَیٹھ کر ہماری شفاعت فرما رہا ہے اور ہم کمال خلُوص اور صدق  دلی  کے ساتھ یہ نغمہ گا سکتے  ہیں۔      ؎

ارض ع سما  کا مالک  و مُختار جی اُٹھا                                                                                                                                                      سارے جہاں کا آج   فِدا کار جی اُٹھا

آؤ چلیں خوشی کی خبر بھائیوں کو دیں                                                                                            دے کر شکست مَوت کو سردار جی اُٹھا

دو دِن  کے بعد مُوت کا مُنہ   زرد پڑ گیا                                                                                                    شاہِ حیات مار کے للکار  جی اُٹھا

مرؔیم  صِفت جہاں کو تُم  اخؔتر  یہ دو نوید                                                                                                                           کُل  عاصیوں کا مُونس و غمخوار جی اُٹھا

خُدا کا بیٹا  جیِنے کے لئے نہیں بلکہ  مرنے کے لئے پَیدا ہُوا تھا اور اُس  کی مَوت کے وسیلہ سے بنی نوع اِنسان کو کاِمل نجات کی بخشش مُیسّر  آئی ہے۔ شاگردوں  کے لئے وُہ  گھڑی نہایت ہی مُہیب  اور تاریک تھی جب اُنہوں نے اُسے انتہائی بے دردی سے صلیب پر لٹکا   دیکھا۔  اُن کے دِل اندرُون سیِنہ ڈُوب  ہی تو گئے ہوں گے جب اُنہوں  نے اُسے  خدا اور انسان  کے درمیان اُوپر  اُٹھا ہوُا دیکھا ہو گا۔ لعن طعن  گالی گلوچ کی بوچھاڑ براعدا نے اُس  پر کی،  اُن کی ہمّت ِبرداشت سے باہر تھی۔ کیا وُہی نہ تھا۔  جِس کی خاطر وُہ  اپنا سب  کُچھ تیاگ  کر اُس  کے پیچھے  ہو لئے تھے؟  اَب وُہ  صلیب  پر اپنی  جان ٹوڑ رہا تھا  اور سارا جہّنم   مارے  ناپاک خُوشی کے ناچتا نظر آتا  تھا! لیکن کیا یہی اُس  کا واِحد  مقصد نہ تھا جِس کے لئے  وُہ  مبعُوث  ہُوا تھا ؟  وہ خِدمت لینے نہیں بلکہ خِدمت کرنے اور بہتوں کے لئے اپنی جان  فدیہ میں دینے آیا   تھا!  أب  وہ صلیب پر میخوں سے جکڑا ہُوا لُہو لہان ہو رہا ہے اور بظاہر  بیچارگی اور کس مپرُسی  کی حالت  میں مر رہا ہے ! شاگرد  اپنے اُستاد کا  فرموُدہ    پہلے ہی فراموش کر چُکے تھے ” میرا جانا تمہارے لئے  فائدہ مند ہے“۔  کائفاؔ نے بھی کہا  تھا۔ ”  تم کچھ نہیں جانتے اور نہ سوچتے ہو کہ تمہارے لئے بہتر ہے کہ  ایک  آدمی اُمّت  کے واسطے  مرے ، نہ کہ ساری ہلاک ہو“ اُن کے خیالات مُنتشر اور پراگندہ تھے۔ اُن کے دل ٹوٹ چُکے تھے۔ اُن  کی اُمید  اُن سے رُخصت ہو چُکی تھی۔  آہ ! یسوؔع  اَب مَر  چُکا تھا !  اُنہوں نے اُس کے اور اُس کی بادشاہی کے متعلق جو پہلے سے اُمیدیں  باندھ رکھی تھیں، سب اُن کے قدموں پر خاک  میں مِل گئیں۔ اب اَور زیادہ اُس سے واسطہ رکھنا بے سُود تھا۔ بیکار تھا !  چنانچہ رنج و غم  سے نڈھال  اپنے سر خمیدہ کئِے  وُہ اُسے  رہیں چھوڑ کر اپنے گھروں کو سُد ھارے۔

یُوسفؔ ارمتیائی  اور نیکدیؔمس  نے جو پہلے کبھی  یسُوؔع  کے پاس  رات کے وقت گیا تھا، یسُوؔع  کی نعش ِمبارک کو صلیب  سے اُتار کر خوشبُو دار چیزوں کے  ساتھ سُوتی کپڑے  میں کفنایا اور ایک نئی  قبر  میں دفن کر دیا اور  قبر  پر  بہ طریق احسن مُہر لگ جانے کے بعد وُہ  بھی  بچشم  گریاں نہایت  بیدلی کے ساتھ اپنی اپنی رہائش  گاہوں کو چل دئیے۔

وُہ وقت نہایت  پرُغم اور اُداسی  کا تھا اِس لئے کہ وُہ   خاص  شخص  جِس  پر شاگرِدوں نے اعتماد کیا تھا،  اَب مصلوُب  ہو کر دفن  ہوچُکا  تھا !  اور بِلا ریب  و شک لوگ آپس میں چہ میگوئیاں کر رہے تھے کہ اَب  اُس کے شاِگرد کیا نیا قدم  اُٹھائیں گے۔ وُہ وقت گریہ و ماتم کا تھا۔ ہائے وُہ  ماُیوس  اور دل شکستہ تھے!

مریمؔ مگدلینی اپنے اُلوہیّت  مآب اُستاد کی وفا   شعار چیلی، اَیسے تڑکے کہ ابھی  اندھیرا  ہی تھا ،  قبر پر آئی۔ صُبح  کے دُھند لکے اور ٹھنڈے وقت ،  اپنے خیالات میں   غرق وُہ  اُس جگہ پُہنچی جہاں یسُوعؔ کو رکھا گیا تھا اور ٹھِٹھک کرہی تو رہ گئی جب  اُس نے دیکھا  کہ پتھرّ قبر کے منُہ سے لُڑھکا ہوُا ہے۔  وُہ فوراً   لوَٹ  کر بعُجلت تمام پؔطرس  اور یوُحناؔ  کو بتلانے دوڑی گئی کہ خداوند  کی لاش کو کوئی  شخص  نکال لے گیا ہے۔ وُہ فوراً  بھاگم بھاگ قبر پر آئے  اور جیسا اُنہیں اُس  نے کہا تھا، وَیسا  ہی پایا۔ پؔطرس ن قبر کے اندر  جا کر دیکھا  کہ سُوتی  کپڑے پڑے ہیں اور رُومال  جو اُس کے سر سے  بندھا ہوُا تھا، ایک جگہ الگ پڑا ہے لیکن یُسوعؔ کی لاش وہاں نہیں ! وُہ  حَیران ہو کر رہ گئے اور بالکل نہ سمجھ  سکے کہ یہ  ماجرا کیا ہے۔ چنانچہ وُہ  دُوسرے  شاگردوں کو جو کچھُ  اُنہوں نے دیکھا تھا ، بتلانے کے لئےاپنے گھروں کو واپس گئے۔

لیکن مرؔیم مگدلینی باہر قبر کے پاس کھڑی روتی رہی اور جب اُس نے جُھک کر قبر کے اندر نظر کی تو دو فرشتوں کو بُراّق لباس پہنے، ایک کو سرہانے، دُوسرے  کو پنیتا   نے، بیٹھے دیکھا جہاں یُسوعؔ  کی لاش پڑی تھی۔ فِرشتوں نے اُسے کہا ” اَے عورت تو کیوں روتی ہے ؟“  اُس نے جواب دیا ” اِس لئے کہ میرے خُداوند  کو اُٹھا لے گئے ہیں اور میں  جانتی نہیں کہ اُنہوں نے اُسے کہاں رکھا ہے؟“ یہ کہ کر وُہ  پیچھے پھری  اور یِسوُع ؔ  کو کھڑے دیکھا اور نہ پہچانا کہ یہ یسوُعؔ ہے۔  یسُوؔع نے اُسے کہا۔ ”  اَے عورت تو کیوں روتی ہے؟ کس کو ڈھونڈتی ہے؟“ اور مریم مگدلینیؔ نے اُسےباغبان سمجھ  کر اُس سے کہا ” جناب ، اگر آپ نے اُسے یہاں سے اُٹھایا ہے  تو مجھے بتایئے کہ اُس کہاں رکھاّ  ہے تاکہ میں اُسے لے جاؤں“۔ یُسوع  نے  اُس   کہا ”مریم“ وُہ فوراً اُس کی آواز پہچان گئی اور بولی  ”ربوُّنی“۔ وُہ  یُسوعؔ تھا۔ جسے وُہ ڈھونڈ رہی تھی !  وُہ  اُس  کے قدم  چومنے ہی کو تھی کہ یُسوعؔ بولا ” مجھے نہ چُھو کیونکہ میَں اَب تک  اپنے باپ کے پاس اُوپر نہیں  گیا لیکن میرے بھائیوں  کے پاس جا کر اُن سے کہ کہ میں اپنے باپ اور تُمہارے  باپ اور اپنے خدا اور تُمہارے خُدا کے پاس اُوپر جاتا ہوُں“۔

مریؔم  پھر شاگردوں کو خبر دینے دوَڑی گئی کہ اُس نے خداوند  کو دیکھا ہے۔

وُہ اُسی روز  شام  کے وقت دُوسرے  شاگردوں  کو بھی دکھائی  دیا اور اُنہوں نے  اُس کا یقین کیا۔  اُن کے غمگین  اور شکستہ دِلوں  میں خوشی کی ایک  نئی لہرَ دوڑ گئی۔ ہاں اُن کا  مسیح جو مر گیا تھا لیکن اَب پھرِ زندہ ہو گیا!

دو یا تین گواہون کے مُنہ سے سچ ثابت ہو جاتا ہے لیکن دو شاگردوں کو تو آماؤس  کی راہ  پر ملا۔  وُہ پطرس  کو نظر ایا اور بھی کئی لوگوں نے اُسے دیکھا اور بولتے بھی  سُنا۔

” وُہ یہاں نہیں بلکہ  جی  اُٹھا ہے“۔  صدیاں بیت گئیں، آج بھی ہم سب کے لئے  عید قیامت  کا پیغام یہی ہے۔  اِن اَیاّم  میں ہم ایک  قبر میں کسی مدفون مسیح کی پرستش نہیں کرتے اور نہ ہی ہم مسیح  کی خالی قبر کی پُوجا کرتے ہیں بلکہ ہم تو قبر سے زندِہ  شُدہ مسیح کے پرستار ہیں۔ الحمدُاللہ ! کیا  ہمنے اِس فرحت  زا پیغام  کے ! یہ شاندار رئیت ہماری زندگیوں میں کیسی اُمید، کیسی ہمّت ڈالتا ہے!

اوّلاً:۔  مسیح کی قیامت  ہمیں موت پر فتح  بخشتی ہے۔ بنی نوع انسانی  بابا آدم  اور اماں حواّ  کے گنا ہ  ،  روُحانی اور جسمانی  مَوت لانے کا موُجب  بنا  لیکن مسیح کی موت اور قیامت کُل  ایمانداروں کے لئے رُوحانی اور جسمانی  زندگی لاتی ہے۔ ”جیسے آدم میں سب مرتے ہیں ویسے ہی مسیح  میں سب زندہ کئے جائیں گے“۔

ثانیاً: ۔  یُسوع مسیح کی قیامت  قبر پر فتح دیتی ہے۔ ہمارے المناک  تجربوں میں غالباً ایک بدترین   تجربہ یہ بھی ہوُا ہوگا۔  جب ہم نے اپنے کسی عزیز کی لاش کو خالی قبر مین سُپردِخاک کیا ہو۔ لیکن عزیزو،  ہمارا وُہ  عزیز قبر میں نہیں ہے۔ ہم محض  اُس  کے مرتےجسم کو اپنے سے الگ کر دیتے ہیں اور اگر وُہ ہمارا عزیز  اپنی زندگی میں خُدا کا   تجربتی رہا ہو گا تو ہم اُن لوگوں کی طرح ماتم نہیں کرتے جو بے اُمید ہیں بلکہ ہم خوش  ہوتے ہیں۔   

Posted in: مسیحی تعلیمات, خُدا, بائبل مُقدس, یسوع ألمسیح, نجات | Tags: | Comments (5) | View Count: (32087)

Comments

  • ARK
    In USA there is a professor of Bible and religious studies at university of North Carolina.He runs a blog called Ehrmanblog.org.This article below is produced by him.Read and decide about what is truth in story of resurrection and what is drama and fiction. *************************************************************************************************** One of the first books that I have re-read in thinking about how it is the man Jesus came to be thought of as God is Gerd Lüdemann’s, The Resurrection of Christ: A Historical Inquiry (2004). Lüdemann is an important and interesting scholar. He was professor of New Testament at Göttingen in Germany, and for a number of years split his time between there and Vanderbilt Divinity School in Nashville. He is a major figure in scholarship, and is noteworthy for not being a Christian. He does not believe Jesus was literally, physically, raised from the dead, and he thinks that apart from belief in Jesus’ physical resurrection, it is not possible for a person to be Christian. This book is written for people with a lot of background in New Testament studies. It is exegetically based, meaning that he goes into a detailed examination of key passages to uncover their literary meaning; but he is ultimately interested in historical questions of what really happened. To follow his exegesis (his interpretation) requires a good knowledge of how NT scholars argue their points: the book is aimed at other NT scholars and, say, graduate students in the field. The basic historical conclusions that Lüdemann draws – based on a careful analysis of all the relevant passages and a consideration of the historical events that lie behind them – is this: o When Jesus was arrested and crucified his disciples fled. They did not go into hiding in Jerusalem – then went back home, to Galilee (where *else* would they go? They went home, to get out of Jerusalem!) o Soon after, it was in Galilee (not in Jerusalem) that belief in the resurrection occurred. It occurred because Peter had a vision of Jesus that included auditory features (he thought he saw and heard him). o This “vision” was induced by psychological factors. Peter felt terrifically guilty for having denied Jesus, and the “vision” he had brought forgiveness from his deep guilt. o This vision was like other visions that people have (all the time): visions of dead loved ones; visions of the Virgin Mary. In these visions, of course the loved ones do not *really* come back to life from the dead, and the Virgin Mary does not *really* show up at Lourdes, etc. These are psychologically induced visions. o Still, like other people who have visions, Peter took the vision to be real and assumed that Jesus was alive again, in heaven. o Peter brought the other disciples together, and maintained with them that the end time was near, as Jesus had originally preached, and that the kingdom of God was soon to appear. The evidence? The resurrection of the dead had already begun. The evidence? Jesus had been raised. The evidence? He had appeared to Peter. All this is happening in Galilee. o The vision was infectious, and the mission got underway. o Even Jesus’ brothers were caught up in the excitement and James became a believer in Jesus. o The other person who had a genuine vision of Jesus was much later, the apostle Paul, who too experienced a psychologically induced vision of Jesus. In this case, he found Jesus’ teaching of forgiveness and mercy appealing, even as he was violently persecuting the church as an enemy. But forgiveness won out and in a cataclysmic break from his past, Paul had a vision of the living Jesus, convincing him that Peter and the others were right: Jesus was still alive, and therefore had been raised from the dead. o Some Christians thought that these visions showed that Jesus was spiritually exalted to heaven – not that his body had been physically raised from the dead. o Others, including Peter and Paul, insisted that in fact Jesus had experienced a physical resurrection of the body, which had been transformed into an immortal body before being exalted to heaven. o The implication was that the tomb was emptied before Jesus’ started to make his appearances (other Christians also claimed to see him, but it is hard to establish that any of the others actually had any visions – they may have simply been building on Peter’s original claim). o But by this time it was too late to know whether the tomb was really empty. For several reasons:  We don’t know how much after his death the vision to Peter came; Acts suggests that it was fifty days before the preaching began; if so, the body would have decomposed.  No one knew where he was buried anyway (the story of Joseph of Arimathea may be a later account, not something that really happened; Jesus may have been buried in a common grave or somewhere no one knew.  It is worth pointing out, Ludemann notes, that Christians in Jersualem appear to have placed ZERO emphasis on the location of the tomb. It was not until 326, according to Eusebius, was the alledged site of burial “rediscovered” under a temple dedicated to Venus. Life of Constantine 3.26-28. And so, the short story: Chrsitianity started among Jesus’ followers in Galilee, sometime after his death, after Peter had a vision of Jesus that was psychologically induced. So, to be clear, I’m not saying I agree with this entire reconstruction. But it’s very interesting, based on a detailed examination of all the evidence from the NT (and outside) by a skilled interpreter, and worth bearing in mind when trying to figure out what really happened both to Jesus’ body and to the followers of Jesus to make them believe it had been raised from the dead.[\private]
    16/04/2017 6:25:39 AM Reply
  • Below article appeareed in www.veteranstoday.com an American site. Time to start defending Christianity (Part III) By Preston James, Ph.D on April 3, 2017 The Babylonian Talmudic process inflicted on society is basically a parasitical Tribalist process and its end-state is massive unemployment, homelessness, societal collapse, rampant deviance and crime, death by violence, starvation or disease, or all of these. All good Christians need to become aware of it so they can intercede and stop this malignancy before it consumes everything they ever worked for and destroys them, their families and their Christian Culture. by Preston James and Mike Harris
    15/04/2017 9:03:51 AM Reply
  • Time to start defending Christianity (Part I) read above long article on www.veteranstoday.com
    15/04/2017 8:59:57 AM Reply
  • “CHRIST SUCKS!” — Al Goldstein, Jewish pornographer “CHRIST SUCKS!” — Al Goldstein, Jewish pornographer see my picture in the article "Time to defend christianity" on www.veteranstoday.com
    15/04/2017 8:54:54 AM Reply
  • Christianty is a unique religion.Jesus never said "I am GOd,nor he said worship me"yet his followers do just that.while on one hand christians claim Jesus was God yet they can't produce the gospel "according to him"you have gospels according to Mark,Mathew,Luke and John which are rewritten many times,and contradict each other,in languages other than in which he taught.Christians say Jesus never did any sin,yet we know that he said to a woman who wanted help all kind of insults,like dogs,or swine.He said to others oh sons of vultures.Is this polite.Can any man who routinely talks like this considered to be even a saint.Even the hindu saints who drink the urine of the cow don't say this.Yet we know when same Jesus write to king Abgar of TUrkey he is very polite because he was rich.CHristianity is a fiath whose founder is said to have died on cross while he himslef said I will not be on the cross.WHat a day dreaming religion and yet insistence that they are right.The only faith that spread with decit,fraud,violence,rape etcetc
    15/04/2017 4:48:55 AM Reply
Comment function is not open
English Blog