Idol Worship in Islam
اسلام میں بت پرستی اور
ذاکر نائیک کی چشم پوشی
اسلام میں بت پرستی ایک ایسا موضوع ہے کہ کم وبیش ہردور، ہر صدی ، بلکہ خود حضور کی زندگی میں ایک مسئلہ کی صورت میں اتم موجود رہا۔ تاریخ گواہ ہے کہ حالات کے ہاتھوں مجبور ہوکر ، مصلحت کے تحت ، برخلاف مشیت ایزدی ، حضور نے اللہ تعالیٰ کی مخالفت مول لے لی۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ جب رسول اللہ نے یہ دیکھا کہ آپ کی قوم نے آپ سے پیٹھ موڑ لی ۔ آپ پر ان کی اس دن سے دوری جو دین آپ لائے تھے ، آپ پر سخت شاق گزری۔ آپ نے دین میں یہ تمنا کی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سی ایسی بات پیدا ہو جو آپ کے اور آپ کی قوم کے درمیان قرب پیدا کرے۔ یہ آپ کی اس حرص کے باعث تھا جو آپ کے دل میں ان کے ایمان لانے کے لئے موجود تھا۔ آپ کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اس دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی اسی بات پیدا نہ ہو جس سے یہ لوگ بدک جائیں۔ آپ نے اس بات کی تمنا کی ۔ تو اللہ تعالیٰ نے سورہ نجم نازل کی۔ (اسباب نزول قرآن، صحفہ۲۹۸) جب آپ آیتہ ۲۰ پر پہنچے تو شیطان نے آپ کی زبان پر آپ کے نفس میں پیدا ہونے والی بات اور آپ کی تمنا آپ کی زبان پر جاری کرادی۔ جب قریش نے یہ کلمات سنے تو وہ خوش ہوئے ۔ رسول اللہ سورت پڑھتے گئے اور آپ نے ساری سورت پڑھ ڈالی ۔ آپ نے سورت کے آخر میں سجدہ کیا۔ مسلمانوں نے آپ کے ساتھ سجدہ کیا۔ ان کے ساتھ مسجد میں جتنے بیٹھے تھے سب نے سجدہ کیا۔ (اسباب نزول قرآن، صحفہ۲۹۸)۔
جدید مورخین کے مطابق ایک مورخ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی آنکھوں دیکھے واقعہ کو اپنے حال کی روشنی سے منور کردے، یا یوں کہہ لیجئے واقعہ کو تحریر کرتے وقت اپنے جذبات کا خلاصہ بھی تحریر میں شامل کرلے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ بتوں کے آگے سجدے میں گرنے کے حضور کی قطعی کوئی مرضی شامل نہیں تھی، بلکہ شیطان نے انکی دل کی خواہش کو جو کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف تھی استعمال کیا۔ لیکن اس بات کا کیاکیجئے کہ اگر ہم اس تاریخی واقعہ میں سے مورخ کی جذباتیت کو نکال دیں اور حضور کی زندگی سے جڑے دیگر واقعات کا احاطہ کریں تو یہ ظاھر ہوجائیگا کہ حضور کہ بت پرستی سے اجتناب حضور کے لئے کسی طرح سے بھی ممکن نہ تھا ۔ بخاری شریف میں ابن عمر سے روایت ہے کہ دعویٰ نبوت کے بہت برسوں پہلے خود آنحضرت بہ نفسِ نفیس ایک مرتبہ پکا ہوا گوشت زید بن عمر و بن نفیل کے پاس تحفہ میں لے گئے تھے مگر اس نے اس گوشت کو کھانے سے انکار کیا اور آپ سے کہا میں نہیں کھاتا جس کو تم لوگ اپنے بتوں پر ذبح کرتے ہوا اور جس چیز پر اللہ کا نام نہیں پکارا جاتا اور اس کو میں ہرگز نہیں کھاتا اور وہ قریش کے ذبیحوں کی برائی بیان کرتا تھا۔ (تاویل القران، صحفہ ۱۳۱۔ ۱۳۰) اسکے علاوہ سلطان المناظرین جناب اکبر مسیح صاحب اپنی شہرہ آفاق تصنیف ( تاویل القرآن صحفہ ۵۷)کے حاشیئے میں ایک مولوی بنام عبداللہ چکڑالوی کی تحریر کا حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’ آنحضرت سے فعل شیطانی سرزد ہوئے جن کی تعداد اٹھارہ تک پہنچتی ہے ‘ ۔(اشاعتہ القرآن، صحفہ ۱۳) جناب اکبر مسیح ان حوالہ جات سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ آنحضرت کے خیال اور قیاس اور آرزو میں القاء شیطانی موجود تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ جناب موصوف ڈاکٹر ذاکر نائیک اپنی کتابچہ کے صحفہ نمبر ۱۰ میں حضور کی زندگی سے جڑے ایک ایسے واقعے کا ذکر کرتے ہیں جہاں یہ لکھا ہے کہ جب حضرت عمر ؓ نے حجرا اسود کو بوسہ دیتے ہوئے کہا ’ میں جانتا ہوں کہ تو صرف ایک پتھر ہے نہ تو فائدہ دے سکتا ہے اور نہ ہی نقصان اگر میں نے نبی کریم کو تجھے چومتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی نہ چومتا ‘ ۔ (اسلام پر چالیس اعتراضات اور ان کے مدلل جوابات، صحفہ نمبر۱۱۔ ۱۰) لیکن یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ کیا اس وقت بھی حضور کسی سحر کے زیر اثر تھے ؟ اور یہ کہ جو بات حضرت عمر ؓ کو بری لگی ، حضور کی سمجھ میں کیوں نہ آئی، اور اب تک مسلمان اس بات کو کیوں نہیں سمجھ پائے کہ حجرااسود نہ تو فائدہ دے سکتا ہے اور نہ ہی نقصان! دوستو، اسی کو بت پرستی کہتے ہیں ، جہاں اللہ کی غلامی کا تصور اتم موجود ہو تو پھر سوال کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ، اسی لئے آپ کے ہاں صحیح سوال سوچنے کی کوئی سندی روایت موجود نہیں، اسی لئے آپ بت پرستی میں مبتلا ہیں ۔ شکریہ !