en-USur-PK
  |  
14

کیا مذہب کی ضرور ت ہے؟

posted on
کیا مذہب کی ضرور ت ہے؟

WHY IS RELIGION?

BY PROF: LOOTFY LEVONIAN

TRANSLATED BY

REV.S.N.TALIB-U-DIN B.A

 

 

کیا مذہب کی ضرور ت ہے؟

 

پروفیسر:لطیفی لیونیان

مترجم پادری ۔ایس ۔این طالب الدین

                        ہم ایک ایسے دور میں ہیں جو ناپائیدار ہے۔ اورجلد جلد بدنما اور گزرتا چلا جارہاہے۔ آج ساری دنیا میں قدیم خیالات اور روایات کی صحت اور ضرورت کی سندطلب کی جاری ہے۔ اور ہر جگہ پُرانے عقائد کی تصدیق کا مطالبہ ہورہاہے۔یہ سائنس کا عہد ہے اور سائنس کی بنیاد تجربے پر ہے۔پس انسان ہر شے کو تجربہ اور مشاہدہ کی کسوٹی پر پرکھنا چاہتاہے اور صرف اُن اُمور کو قبول کرنا چاہتاہے جواس کسوٹی پر کھرےثابت ہوں۔ یہ سماجی  ارتقا کا زمانہ ہے اور انسان قدیم روایات کی جانچ پڑتال ان کی سماجی افادیت سے یعنی اس نفع ونقصان سے کررہاہے ۔ جو ان سے سماج کو پہنچتاہے ۔ آج خاندان کی اورسماجی ادارہ کی پرکھ اسی اصول پر ہورہی ہے ۔ مذہب اس جانچ پڑتال سے بچا ہوا نہیں۔

          بہت سے انسان آج مذہب کی ضرورت اوراُس کے دعوؤں کو اسی رائج الوقت کسوٹی پر رگڑرہے ہیں ۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ کیا مذہب کی ضرورت ہے کیا مذہب سے نوع انسان کی ترقی ہوتی ہے ؟ مذہب کا تعلق فوق الفطرت سے ہےمگر کیا انسان کسی ایسی ہستی یا قوت کا محتاج ہے جواس کی دنیا سے بالاوبعید ہو۔ پھر مذہب توانسان کےباہمی تعلقات اور ربط وضبط کوخدا کے نقطہ نگاہ سے دیکھتاہے ۔ مگر کیا اس کی کوئی ضرورت بھی ثابت ہے۔ مذہب نجات کا تذکرہ کرتاہے۔ کیا انسان میں اپنی نجات کی بھی سکت نہیں؟ مذہب خدائی طاقت کا بیان کرتاہے کیا انسان میں ہمت نہیں جو اس کی نشاط کی ضامن ہوسکے؟ مذہب کہتاہے کہ تمام اخلاقی قوانین خدا کے حکم ہیں اوراُن کی تعمیل لابدی ہے۔ مگر ضرورت ہی کیا ہے کہ انسان اخلاقی وہموں کے جکڑ بند میں رہے۔ کیا اخلاقی فرائض  سماج  کی بہتری اور بھلائی کے واسطے سماجی دستوروں کا دوسر انام نہیں۔ پھر کیا ضرورت ہے کہ وہ انسان کے آقا ہی بن جائیں؟

          بعض لوگ تویہ گمان رکھتے ہیں کہ وہ دن آنے والے ہیں جب مذہب کا سکہ ہی نہ رہےگا۔ سائنس کی روز افزوں ترقی مذہب کا دھکیل کر میدان سے نکال دے گی۔ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ انسانی سماج کی تدریج اور تعمیر میں مذہب یا الہٰیات  کی منزل ادنیٰ تریں درجہ رکھتی ہے۔اس منزل میں انسان یہ عقیدہ رکھتاہے کہ خدا ہے اوراسی عقیدہ کے مطابق اپنی زندگی کی چولیں بٹھاتاہے۔ مگر یہ منزل گزرہی ہے ۔ اور انسان دوسری یعنی فلسفیاتی منزل میں داخل ہورہا ہے۔ اس منزل میں انسان ہر خیال اور عقیدہ کوعقل کے ترازو پر تول رہاہے ۔ اورجوکچھ اس ترازو پر پورا نہیں اُترتا اُس کو رد کردیتاہے۔ مگر اس سے ایک بلند منزل بھی ہے ۔ اور وہ سائنس کی منزل ہے۔ اُس منزل میں انسان سائنس کوسب سے اعلیٰ حقیقت گرادنتاہے ۔ اورہرشے کوسائنس کی کسوٹی پر رگڑتا ہے۔ جس شے کی سائنس تصدیق کرتی ہے اُسی کو انسانی زندگی کی بنیاد قرار دیا جاتاہے ۔ ایسے لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک زمانہ آنے والا ہے ۔ جب مذہب اور خدا پرستی کو انسانی زندگی کی ساخت میں کچھ دخل نہ ہوگا۔ انسان مذہبی امور کوباطل قرار دے گا۔ فقط سائنس کوزندگی کی بنیاد قرار دے گا۔ اوراس کےاصول پر سماجی زندگی پھر سے تعمیر کرےگا۔ اس قسم کے لوگوں کاایمان ہے کہ اس سےا نسان کی مشکلیں حل ہوجائیں گی ۔ اوراس کی خوش حالی یقینی ہوجائے گی۔

          ایک زمانہ تھا جب کہ انسان نے بعض مذہبی عقائد پر شک کی نظریں ڈالیں اوران کی ترمیم کا ارادہ کیا۔ مگر آج انسان کا دماغ مذہب کے خلاف جہاد کررہاہے اوریہ کہہ کر قصہ ختم کردیتاہے کہ مذہب تومحض انسان کی ابتدائی وحشی حالت کے لئے ایک ادارہ یا نظام تھا۔ جوانسان کی موجودہ حالت کے لئے بے کار ہے۔

          آئیے ہم اس سوال کی چھان بین کریں کہ آیا انسان کومذہب کی ضرورت بھی ہے؟ اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ مذہب انسان کے لئے ایک لاعلاج مرض ہے۔ مذہب ہر زمانہ اورہرملک میں انسان کا ایک عالمگیر تجربہ رہاہے۔جب بھی انسان نے اپنی زندگی پر اورکائنات پر توجہ کی ہے ہمیشہ خدا کی ہستی کا مسئلہ اس کے پیش نظر رہاہے۔ جہاں بھی انسانوں کو مل جل کر زندگی بسر کرنے کا اتفاق ہواہے۔اُنہوں نے مذہب کسی نہ کسی صورت میں ماناہے۔ مذہب انسان کے لئے طبعی امر ہے۔ مذہب انسان کی گھٹی میں ہے۔ اس کی ترکیب اور تعمیر میں مذہب کا عنصر ہے۔ انسان اشرف المخلوقات ہے اوراس میں حیرت انگیز استعداد اور صلاحیت ہے۔ مگر باوجود ایں ہما انسان میں اپنی محتاجی کا بھی زبردست احساس موجود ہے۔ جہاں اس میں عروج وکمال کی طرف بڑھنے کی قوت ہے۔ وہاں اس میں اپنی مجبوری اور بے کسی کا بھی احساس ہے۔ اور وہ خدا سے پناہ اور مدد کا خواستگار ہوتاہے۔ انسان بے شک مادی جسم رکھتاہے مگر اس میں روح بھی ہے۔وہ روحانی ہستی ہے ۔ اس کے پاس ایسے ایسے معیار ہیں جو اس کے امکان اور پہنچ سے باہر اور بعید ہیں۔ وہ اپنی احیاء اور بقا کے لئے محض مادی اسباب اورسامان سے مطمئن نہیں ہوتا۔ اس کی ہستی کی گہرائیوں میں روحانی ولولے بھی پنہاں ہیں وہ کسی ایسے شئے کی تلاش میں ہے جو نہ تواس کی اپنی ذات میں ہے نہ فطرت میں ہے ۔ اس میں کسی ایسی چیز کی بھوک اورپیاس ہے جواس سے بلند وبالا ہے  اوفوق الفطرت  ہے۔ یہ طلب  وتلاش  اور بھوک اورپیاس انسان کی ساخت میں ہے ۔ انسان کی طبعی طاقتوں اور لیاقتوں کوخواہ کتنا ہی کمال کیونکر نہ حاصل ہو توبھی بعض طاقتیں ہیں جن کے سامنے انسان ہتھیار ڈال دیتاہے ۔ یہ مادی دنیا انسان کو خواہ کتنا ہی کچھ عطا کرے تاہم اسے حقیقی راحت اور آسودگی نصیب نہیں ہوتی ۔ نیز اس کی روحانی امنگوں کوخواہ کتنا ہی دبانے کی کوشش کی جائے تاہم وہ زور مارکر اس کے سینے میں اُبھرآتی ہیں ۔یہ حقیقت ہے کہ انسان محض مادی ہستی نہیں یا بالیقین انسان روحانی ہستی ہے اور لامحالہ وہ اپنی تسکین اور تشفی کے لئے روحانی عالم کی طرف آنکھیں اٹھاتا اورہاتھ پھیلاتاہے۔ ان لوگوں کو جومذہب کا استیصال کرنا چاہتے ہیں اس بنیادی حقیقت  سے چشم پوشی نہیں کرنا چاہیے ۔ مذہب انسان کے لئے ناگریز ہے۔ مذہب کا مرض لاعلاج ہے۔

          اس سے ایک اور نکتہ پیدا ہوتاہے ۔ وہ یہ ہے کہ اگر مذہب انسان کے لئے ناگریز ہے تو انسان کی شخصی زندگی کی صحیح نشوونما کے لئے مذہب لابدی ہے۔ انسان میں بالیدگی اور نشوونما کی بے پناہ قوت ہے۔اس کی مادی بالیدگی کے لئے صحیح اور صحت بخش ماحول کی اور موزوں ومناسب غذا کی ضرورت ہے۔ اگر یہ میسر نہ ہوں توانسان مرض اور موت کا شکار ہوجاتاہے۔انسان فہم وفراست میں بھی بالیدگی حاصل کرتاہے۔ لہذا اس کو زندگی کی ہر منزل کے مناسب حال تعلیم وتربیت کی ضرورت ہے۔ورنہ انسان  جاہل رہتا اور وہم پرست  بن جاتاہے۔ اسی طرح انسان روحانی نشوونما بھی پاتاہے۔ جس کے لئے اس کو روحانی غذا اور قوت کی حاجت ہوتی ہےورنہ حیوانی جذبات غالب آکر اس کی مردانگی کی روح کو کچل ڈالتے ہیں وہ شہوت  پرست ، حاسد اور ناکارہ بن جاتاہے۔ قطع نظر  اس سے کہ گناہ کی تعریف کیا ہے ۔ گناہ انسانی زندگی میں ایک حقیقت  ہے گناہ  ایک شکست ہے۔ جب صحیح قسم کی زندگی بسر کرنے میں ناکامی ہوتی ہے تواسی کا نام گناہ ہوتاہے۔ گناہ انسان کی اخلاقی شکست ہے۔ ہمارے اندر دوشریعتیں کام کرتی ہیں ایک نیکی کی دوسری بدی کی ۔ بدی کی شریعت اطاعت اور پابندی گناہ ہے ۔ انسان اس حالت زبوں سے اس اندرونی تباہ حالی اور کشمکش سے نجات چاہتاہے ۔ اوریہ کام فقط خدا کے فضل اوراس کی الہٰی طاقت سے ممکن ہے۔پس زندگی کے سفلہ اور ذمیمہ حصہ پر انسان کو فتح کی ضرورت ہے اور یہ فتح صرف مذہب کی بدولت حاصل ہوتی ہے۔

          دیگر سماجی زندگی کوبہتر بنانے کے لئے بھی مذہب اشد ضروری ہے۔انسان متمدن ہستی ہے اور دنیا میں رہتا ہوا سماجی تعلقات سے بچ نہیں سکتا۔ مل کر گروہوں میں رہنا خواہ وہ گروہ خاندان کی صورت میں ہو۔ یا جماعت کی صورت میں ہو انسان کے لئے ایک طبعی امر ہے۔ ساتھ ہی اسکے یہ امر بھی سچ ہے کہ انسان کی بڑی بڑی دقتیں اور پریشانیاں تعلقات ہی سے پیدا ہوتی ہیں اور انسان اُن دقتوں کے حل اور زندگی کی ہمواری  کے لئے سرگرداں رہتاہے۔اس مقصد کے حصول لئے بہت سی تجاویز انسانی ذہن کو سُوجھی ہیں اور انسان نے نہایت تن دہی اور رغبت سے ان پر عمل بھی کیا ہے۔ مگر چونکہ وہ تجاویز سطحی اور عارضی تھیں۔ گوہر مقصود  ہاتھ نہ آیا۔ انسان کی دقتوں اور پریشانیوں کی جڑھ اُس کی حرص اور نفس پروری ہے۔ باہمی تعلقات کی صحت کے لئے ضرور ہے۔کہ انسان کے ارادے اور مقاصد پاکیزہ ہوں۔ ہم ایک ایسے دور میں سے گذر رہے ہیں۔ جب کہ سائنس کو عروج حاصل ہے اورانسان نے قوت کے نئے نئے چشمے دریافت کئے ہیں اور حیرت انگیز  چیزیں ایجاد کی ہیں۔ مگر ان سے سماجی تعلقات میں صحت اور صفائی نہیں آئی کیونکہ انسان نےاُن کو صحیح مقاصد کے لئے استعمال نہیں کیا۔ بیشک ہم نے عمدہ عمدہ ایجاد کی ہیں۔ مگرہم نے اُن کو عمدہ مقاصد کے لئے استعمال نہیں کیا۔ انسان کی فلاح وبہبود کے لئے ضرور ہے کہ ہمارے مقاصد بلند اور پاکیزہ ہوں۔ سائنس ہم کو یہ چیز عطا نہیں کرسکتی۔ علم تشریح البدن کا ماہر میرے جسم کی ہڈیوں اور نسوں کی تعداد اوراُن کے نام بتاسکتا ہے ۔ مگر وہ میرے دلی ارادوں کو نہیں پہنچ سکتا ایکس ر (X RAY) میرے وجود کے تاروپود میں سے گذرسکتاہے اورمیرے بدن کے رازِ نہاں عیاں کرسکتاہے مگرمیرے سوچ بچار کی کوٹھڑی میں داخل نہیں ہوسکتا۔ہمیں روحانی نباض کی ضرورت ہے ۔ جوہماری صحیح تشخیص کرے اورہمارے مقاصد کا تذکیہ وتصفیہ کرے۔ ہمارے باہمی تعلقات میں نفسہ نفسی اور حرص  وہوا مہلک اثر رکھتے ہیں۔ ضرور ہے کہ انسان گمان ترک کرے۔ کہ میں صاحب ہوں۔ اور دیگر تمام انسان بندے ہیں۔ برعکس اس کے انسان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ میں کُل انسانوں کا (یا کُل ہم جنسوں کا ) خادم ہوں۔انسان کوا پنے حقوق کی بجائے اپنے فرائض پر غور کرنا چاہیے ۔ دوسروں سے یعنی کی بجائے اُنہیں دینا چاہیے۔ اور چھین جھپٹ  کرنے کی بجائے  قربانی اور ایثار کوموقعہ دیناچاہیے۔ بدی پر غالب آنے کے لئے ضرور ہے کہ انسان یہ سبق حاصل کرے کہ بدی پرنیکی سے اور نفرت پر الفت اور مروت سے غالب آسکتے ہیں۔ انہیں (بالیقین) اس سبق کی بھی ضرورت ہے۔ کہ ہمیں اپنے پڑوسیوں کوبلکہ اپنے بدخواہوں  کوبھی پیار کرنا چاہیے۔ باہمی تعمیر اور ترقی کے لئے انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہےیہی ہے اور یہ ضرورت صرف ایک صحیح شعور مذہب سے پوری ہوگی۔کیونکہ مذہب ہم کو خدا کے تخت عدالت کے سامنے لاکھڑا کرتاہے جس سے کوئی ارادہ یا کوئی بھید مخفی نہیں۔ باہمی تعلقات میں غرور ،حرص، اورحسد سے بچنے کے لئے ضرور ہے۔ کہ انسان کوئی خدا کی حضوری کا احساس نصیب ہو۔ اگر انسان خدا کو نظر انداز کرے تواُس کی صحیح قوت فیصلہ صلب ہوجاتی ہے۔ وہ مغرور اور سخت گیر ہوجاتاہے اوراپنے حیوانی جذبات  کا غلام بن جاتاہے ۔ صرف خدا کی حضوری میں انسان عاجزی اختیار کرتا اوراپنی صحیح تصویر دیکھتاہے۔ صرف خدا ہی ہمارے اندرونی  حالات پر سے پردہ اٹھاکر ہمارا غرور اور حرص ہمیں دکھاسکتاہے۔ پس اپنی صحیح تصویر دیکھنے اور زندگی کی شست وشو کے لئے ہم کومذہب کی ضرورت ہے۔ صرف مذہب ہی ہم میں یہ احساس اور قائلیت پیداکرسکتاہے کہ ہم حریص ہیں۔ مگرہم کو علم ہونا چاہیے کہ ہم مختار اور امین ہیں اورخدا کی کل نعمتیں  ہم جنسوں کی خدمت کے لئے ہم کو بخشی گئی ہیں۔

          زندگی اوراس کے مقصد کوٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لئے بھی مذہب کی ضرورت ہے۔ مذہب بہت سے مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ ابتدا میں انسان نے مذہب کوزندگی کی جدوجہد میں بطور ایک سحر کے استعمال کیا ۔ اپنی مصیبت اورپریشان حالی میں انسان نے اکثر مذہب کی طرف توجہ کی ہے اور جنتر منتر اور صدقہ سے غیبی طاقتوں کواپنا حامی بنانے کی کوشش کی ہے۔ نیز بعض مخصوص رُسوم کی ادائیگی سے مذہب کو سماجی زندگی کے لئے بطور محرک کے استعمال کیا گیا ہے۔سلطنت رُوم میں مذاہب اسرار ایسا کرتے تھے ۔ آج بھی بعض جاہل قبیلے یہی کرتے ہیں ۔ پھر دنیا اور روز مرہ کے واقعات کی توضیح اور تشریح کے لئے بھی مذہب ہی کو استعمال کیا گیا ہے۔ زمانہ قدیم کے علم الاصنام اور زمانہ مابعد کے علمِ الہٰی نے بھی یہی کام دیا۔

          مگر اُن سے اور مذہب کے ایسے ہی دیگر استعمالوں سے مذہب کی حقیقت نہیں کھلتی۔ مذہب حقیقت میں نہ تو سحر ہے نہ سماجی مظاہرہ ہے نہ علم الاصنام ہے۔نہ محض علم الہٰی ہے ۔ بلکہ روح کا مشاہدہ ہے۔ مذہب ایک آگاہی ہے کہ مادی عالم کے ماسوا اور ماوراء ایک روحانی عالم بھی ہے ۔ مذہب مادی دنیا کی حدوں سے پر ے جانے والی ایک حقیقت ہے۔ مذہب نادیدنی کا یقین ہے۔ مذہب روحانی اور غیر مرئی  پر ایمان ہے۔ المختصر مذہب خدا پر ایمان ہے۔ یہی مذہب کی جان ہے اوراسی میں انسانی زندگی کے لئے ایک مستقل اور ناگزیر قدرت ہے۔

          مگر جب ہم کہتےہیں " ایمان خدا پر" تواس سے مراد ہے "ایمان زندگی پر" ۔ انسان زندگی کے منجدھار میں طوفانوں اور حسرت انجام وارداتوں سے گھرا ہوا ہے ۔ قدرت کی اندھا دُھند کام کرنے والی طاقتیں  انسان کو ڈرا اوردھمکارہی ہیں۔ اور انسان زندگی کی پائیداری چاہتاہے۔ خدا پر ایمان رکھ کر ہی انسان تغیر اور انقلاب میں اُستواری اور انتشار میں سکون حاصل کرسکتا ہے۔ ایمان ہی ہمیں سیکھاتا ہے کہ زندگی موجِ سراب نہیں بلکہ حقیقت  ہے۔ زندگی کچھ معنی رکھتی ہے اوراس کا ایک مقصد ہے جو پورا ہورہاہے اورایک زندگی ہے جو موت کی وسعت اور گرفت سے بہت آگے ہے۔ خدا پر ایمان ہی انسان کو پریشانی میں خود ضبطی، مصیبتوں میں ہمت اور ہچکولوں میں ثبات عطا کرتاہے۔اس ایمان کے بغیر انسان زندگی کی گراں باری کے نیچے دب کر رہ جائے۔ اسی ایمان سے ہم جرات اور امید کے ساتھ زندگی کا مقابلہ کرتے ہیں۔ مادہ پرست ہمیشہ قنوطی (مایوس) ہوتاہے ۔ کیونکہ مادہ فنا پذیر ہے۔ صرف رُوح کوبقاحاصل ہے۔ دُنیا میں سب سے بڑا حادثہ دولت یا صحت کا نقصان نہیں بلکہ امتاع ایمان کا لٹ جانا خسارہ عظیم ہے۔ کیونکہ خدا پر ایمان نہ رہے تو زندگی میں کوئی اُمید باقی نہیں رہتی۔

          خدا پر ایمان رکھنا ہی انسانی زندگی کے ارتقاءکا ضامن ہے۔ بادی النظر میں تاریخ واقعات کا ایک سلسلہ ہے۔ جس پر اقتضادی اغراض یا موسمی تبدیلیاں حکومت کرتی ہیں اور قوتِ حیوانی سے نتائج تک رسائی حاصل کی جاتی ہے۔ سطحی طورپر تاریخ زندگی کے قیام ودوام کے لئے ایک سخت قسم کی جدوجہد  معلوم ہوتی ہے۔ ایک ایسا ہنگامہ معلوم ہوتی ہے جس میں دھاوے ، چھاپے، لوٹ مار اور خون ریزی نظرآتی ہے۔ مگر یہ سب کچھ عارضی ہوتاہے۔ اس لئے کہ اس جدوجہد سے پرے کچھ اور قانون ہیں۔ جوتاریخ کے سلسلہ واقعات پر غالب ہیں اور قوموں کا حشر اُنہیں کے ہاتھ میں ہے۔ مذہب ان قوانین کی طرف ہماری توجہ راغب کرتاہے۔ تاریخ  محض سیاسی واقعات کا مجموعہ یا سلسلہ نہیں جو سیاسی چالوں یا حیوانی قوت سے پیدا ہوتے ہوں۔ بلکہ ایک ایسا عمل ہے۔ جس میں آ خری فیصلہ رُوحانی عناصر کے ہاتھ میں ہوتاہے۔ ہم بدی کے غلبہ اور راست بازوں کی اذیت کے مسئلے کوتسلی بخش طریق پر حل نہیں کرسکتے۔مگرہم کو وثوق حاصل ہے۔ عدل اور راستی کے اصولوں کو نظر انداز کرنے سے تباہی آتی ہے۔ اور ذاتی اغراض، حرص، اور نفس کوشی سے سماجی زندگی میں انتشار اور ابتری آتی ہے۔ خدا پر ایمان رکھنا ۔ گویا مروت اورمحبت کی طاقت پر ایمان رکھنا ہے۔ تاریخ کی صحیح تشریح میکانکی اور مادی تشریح نہیں بلکہ روحانی تشریح ہے۔ انجام کار اور روحانی طاقتیں ہی تاریخ میں نتائج  پیدا کرتی ہیں اورآج اس بچپن اور بے کل دنیا میں ہمیں اسی ایمان کی ضرورت ہے۔

          "مذہب کی ضرورت" : اس سوال پر بحث کرتے وقت ہم بڑے بڑے مذہب پرستوں اور دین داروں کی زندگیوں کا اور بالخصوص سیدنا مسیح کی زندگی کا جن کی زندگی میں حقیقی مذہبی زندگی مجسم اور نمایاں تھی مطالعہ کریں گے اوراُن سے بیش قیمت سبق حاصل کریں گے۔ سیدنا مسیح کو مذہب پرپورا یقین تھا اوراُن کی زندگی  اورموت ایک مذہب پرست کی تھی۔ اُن کو یقین حاصل تھا کہ روحانی زندگی اصل زندگی ہے۔ اورانسان کے بلند ترین مقاصد اسی سے حاصل ہوسکتے ہیں ۔ روحانی زندگی کواُنہوں نے عارضی زمینی زندگی کے مقابلے میں" ہمیشہ کی زندگی " کہا۔ سیدنا مسیح کا سب سے بڑا مقصد یہی تھا۔ کہ وہ روحانی زندگی کی قدروقیمت کا احساس بیدا ر کرے ۔ انسان عارضی زندگی سے مطمئن تھے اور ادنیٰ  درجہ کی زندگی بسرکررہے تھے ۔ مسیح نے اُن کو ہمیشہ کی زندگی کی طرف دعوت دی۔" یہ ہمیشہ کی زندگی" کیا ہے۔ ہمیشہ کی زندگی خدا کو انسان کے پاس لاتی ہے۔ سیدنا مسیح کے زمانہ میں لوگ کثرت الارباب کا عقیدہ رکھتے تھے اوران کے ارباب یا دیوتااپنے معتقدوں کے لئے سیرت کا بلند معیار یا نمونہ پیش نہ کرتے تھے ۔ وہ شہوت پرست، غیر مہذب ، حاسد، اور منتقم تھے۔ ان کے علاوہ توحید پرست لوگ بھی تھے۔ مگر اُن کا خدا اُس قدر دُور اور بلند تھا۔ سیدنا مسیح کی زندگی میں ہم واحد خدا کود یکھتے ہیں جو قدوس اور قادر ہے۔ مگر عابدوں کے پاس ہے اور محبت ہے۔ یہ خدا جنگلی سوسنوں کولباسِ حُسن پہناتا اور پرندوں کو اُن کا رزق پہنچاتاہے۔ وہ سب کی فکر کرتاہے ۔ یہاں تک کہ چھوٹی سے چھوٹی چڑیابھی اُس کی نظروں سے اوجھل نہیں۔ انسان اُس کی محبت اور رحمت سے کس طرح محروم رہ سکتے ہیں ۔ اگر ہمارے والدین ہمیں اچھی اچھی چیزیں مہیا کرتے ہیں توخدا باپ ہمیں اچھی چیزوں سے کیوں نہ سیرو آسودہ کرے گا۔ اُس نے کہا ہے " مانگو توتمہیں دیا جائے گا۔ڈھونڈو توتم پاؤ گے۔ دروازہ کھٹکھٹاؤ توتمہارے واسطے کھولا جائے گا"۔ خدا مہربان ہے۔ خدا قریب ہے ۔سیدنا مسیح کے زمانہ میں خدا کا تصور اس سے بہت اختلاف رکھتا تھا۔ انسان خدا کوایک من موجی ہستی سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ وہ آسمانوں پر تخت نشین ہے اورجیسی اُس کی مرضی ہوتی ہے۔ انسانوں پر فراغت اور تنگی اور سزا اور جزا بھیجتاہے۔ وہ ایک خوفناک ، خود رائے اور مجہول العلم حاکم مطلق تھا۔ سیدنا مسیح نے ان تمام غلط تصورات  کا ازالہ کیا ، اوریہ دکھایا کہ خدا سب کا باپ ہے۔ جوسب کے قریب ہے اورسب پر مہربان ہے۔ یقیناً اس قسم کا ایمان زندگی کا نقطہ نگاہ ہی بدل دیتاہے اور کمزوری میں زور، مایوسی میں اُمید ، مصیبت میں ہمت اور پریشانی میں اطمینان عطا کرتاہے اور مذہب کوبوجھ کی بجائے ، نشاط بناتاہے۔ انسان کو اس ایمان کی ضرورت ہے خدا مہربان ہے۔ اور خدا ہمارے پاس ہے۔

          یہ ایمان اور عقیدہ انسانوں کوخدا کے پاس اور نزدیک تر لے آیا مذہب کی تاریخ میں خدا ترسی کا مسئلہ انسان کے لئے بے حد دق کرنے والا ثابت ہوا ہے ۔ انسان نے خدا کوہمیشہ ناقابل رسائی سمجھاہے اور اُس کی خوشنودی کے کئی ڈھنگ نکالے ہیں۔ انسان کا عبادت کی غرض سے خدا کے پاس آنا آسان نہ تھا۔ بلکہ بہت  سی پُرتکلف رسمیات ادا کرنی پڑتی تھیں، وضو اورنماز کے بہت پیچیدہ ضابطے تھے۔ علاوہ ازیں ہادیانِ دین کا ایک سلسلہ تھا جوخدا اورانسان کے درمیان میانجی گرمی کرتا تھا۔ معقول عبادت کے لئے عابد کویہ کل بکھیڑا کرنا پڑتا تھا۔ یہاں تک کہ مذہب کی پیروی انسان کے لئے ایک دشوار گزار منزل تھی۔

          سیدنا مسیح نے اس تمام ٹنٹے کو نظر انداز کردیا۔ اورکہا کہ عبادت میں آزادی ہونی چاہیے۔ سیدنا مسیح ہر گھڑی اور ہر جگہ دُعا کرلیتا تھا۔ اورہر عابد کو یہی تلقین کرتا تھا ۔ نہ کسی رسم کی ادائیگی کی ضرورت  تھی۔ نہ کسی درمیانی کی احتیاج تھی ۔ ہر انسان آزادی سے خدا کے پاس جاسکتا ہے۔ ہر فرد وبشر خواہ کیسا سیاہ کار کیوں نہ ہو۔ خدا کی حضوری میں حاضر ہونے کا حق دار ہے۔ سیدنا مسیح کی یہ تعلیم انقلاب آور تھی۔ اس زمانہ کے لوگ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ انسان خدا کے قریب آنا چاہتاہے مگر خدا کو انسان کی نزدیکی ناپسند ہے۔مگر سیدنا مسیح نے یہ تعلیم دی کہ انسان کے لئے چشم براہ رہتاہے ۔ مگر انسان ہے کہ ملتفت نہیں ہوتا۔عوام کہتے تھے " کہ خدا کے پاس جانے کے لئے فقط تائب دل کی ضرورت ہے ۔ عوام میں یہ خیال رائج تھاکہ انسان کے ساتھ خدا کی صلح کی ضرورت ہے۔ اس لئے کہ انسان درحقیقت خدا کے ساتھ وفادار نہیں رہا۔ نیز یہ یقین عام تھا کہ انسان خدا کی جستجو میں ہے۔ مگر خدا کوپا نہیں سکتا۔ سیدنا مسیح نے کہا کہ دراصل خدا انسان کی تلاش میں ہے اور انسان ہے کہ اپنے دل کا دروازہ بند کئے ہوئے ہے۔ اس کی توضیح کے لئے سیدنا مسیح نے کئی ایک سادہ مگر معنی خیز تمثیلیں کہیں۔

          آپ نے فرمایا کہ ایک گڈریا تھا۔ جس کے پاس سو بھیڑوں کا ریوڑ تھا۔ اُن میں سے ایک گم ہوگئی ۔ اُس نے ننانوے کو تو چھوڑا اور اُس کھوئی ہوئی کی تلاش کرتا رہا۔ جب تک وہ مل نہ گئی۔ خدا بھی اس  گڈریا کی طرح کھوئے ہوئے انسان کی تلاش میں ہے۔

          پھر آپ نے فرمایا کہ ایک عورت کے پاس دس درہم تھے۔ اُن میں سے ایک کھوگیا ۔ اُس عورت نے چراغ جلایا ۔ درہم کی تلاش کی اورجب تک مل نہ گیا تلاش کرتی رہی۔ اسی طرح خدا ہر گمراہ روح کی تلاش میں ہے۔

          اس کے علاوہ سیدنا مسیح نے ایک باپ کی نہایت دلچسپ داستان سنائی ۔ جس کے دو بیٹے تھے۔ اور اُن میں سے ایک یعنی چھوٹا بیٹا گھر چھوڑ کر عیش کی زندگی بسر کرنے کے لئے پردیس چلا گیا تھا۔ مگر ایک دن یہ لڑکا پشیمان ہوکر واپس گھر آیا۔ باپ سے اپنی نازیبا حرکت کا اقرار کیا۔اور افسوس کا اظہار کرکے توبہ کی۔ جب باپ نے اس بیوفا بیٹے کو دُور سے گھر کی طرف واپس آتے دیکھا تو بھاگ کر اُس کا استقبال کیا۔ اُسے گلے لگایا اور چُوم کر پیار کیا۔اس لئے  کہ اُس کا کھویا ہوا بیٹا مل گیا تھا۔ خدا بھی باپ کی طرح ایک شفیق دل رکھتاہے۔ اوراپنے تائب فرزندوں کومعاف کرنے اور خاندان میں قبول کرنے کے لئے ہمیشہ تیار ہے۔خدا ترسی کے مسئلہ پر مسیح کی تعلیم ایسی تھی ۔ خدا کو کسی تکلف کی ضرورت نہیں بلکہ وہ خلوص چاہتاہے۔ وہ قربانی سے نہیں بلکہ تائب دل سے خوش ہوتاہے۔ گرے ہوئے انسان کے لئے مسیح کا یہی پیغام تھا۔ یہ خوش خبری تھی ۔ جو کل انسانوں کے واسطے تھی۔ اس میں برگشتہ اور نا اُمید انسان کے لئے امیدوں کا ہجوم تھا۔ اس میں کلام نہیں کہ جیسا ایمان مسیح خدا پر رکھتے تھے ۔ اس قسم کا ایمان اُمید پیدا کرتاہے۔ جس سے زندگی میں وہ حوصلہ اور سُرور آتاہے ۔ جس کی انسان کوضرورت ہے۔

          اس ایمان سے انسان ایک دوسرے کے نزدیک توآگئے:۔

          سیدنا مسیح کے ایام میں لوگ فرق میں بٹے ہوئے تھے۔ ان فرقوں کا تقسیم قومی ، ملکی اور مذہبی اعتقادات کی بنیاد پر کی گئی تھی۔ ہر فرقہ دوسرے فرقہ کوشک اور حسد کی نگاہوں سے دیکھتا تھا ۔ فریسی صدوقیوں سے نفرت کرتے تھے اور صدوقی فرقہ غیر فرقہ والوں سے نفرت کرتے تھے ۔ یہودی سامریوں کو حقیر جانتے تھے ۔ رُومی اور یہودی سیاسی بناء پر ایک دوسرے سے بگڑے رہتے تھے ۔ حالانکہ ایک ہی سرزمین میں بستے تھے ۔ اُس زمانہ میں غلامی کا رواج تھا۔ آقا غلاموں سے بدسلوکی کرتے تھے۔ اور غلام آقاؤں پر لعنت بھیجتے تھے ۔ غرضیکہ اُس زمانہ کی دنیا ہماری دنیا کی طرح پریشانی اور ہیجان میں مبتلا تھی۔ انسان دوسروں کی بھلائی کے لئے باہمی میل اور موافقت کے اصول پر بھول کر بھی غور نہیں کرتے تھے۔ بلکہ برعکس اس کے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے اورہنگامے اور فساد برپا کرتے رہتے تھے۔ مسیح نے اس قسم کی شکستہ دنیا کوجس کا شیرازہ  بکھرا ہوا تھا۔ میل ملاپ اور برادرانہ الُفت  کی تعلیم دی۔آپ نے زندگی کا ایک نیا طرز پیش کیا۔ جس سے مروت اور رفاقت ترقی کرتی ہیں اور خیر خواہی بڑھتی ہے۔مسیح نے اپنے زمانہ کے لوگوں میں ایک نئی روح پھونک دی۔ جو اُن کے گلے اور رنجیشیں دُور کرکے اُن کو ایک دوسرے کے اعضا اور بہی خواہ بنانے والی تھی۔ آپ نے کہا ۔ اگر تمہارا بھائی قصور کرے تو اُسے معاف کرو۔ ستر کے سات دفعہ معاف کرو۔ جوتمہیں بے وجہ دکھ پہنچائے تو اُس کے لئے دعا کرو۔ اگر تمہارا  کوئی دشمن ہے تواُسے پیار کرو۔ بڑا بننے کی کوشش نہ کرو، بلکہ دوسروں کی خدمت کو فخر سمجھو ۔ تمہارا معقولہ اور دستور العمل یہ ہونا چاہیے کہ خدمت الناس احسن الاذکار ہے۔ ایک دوسرے سے محبت رکھو۔ ایسا کیوں کریں۔ مسیح نے یہ اصول اس خیال سے پیش نہ کئے کہ اچھی زندگی بسر کرنے کیلئے ان کو اخلاقی ضابطہ سمجھا جائے ۔یا ان کو خوشی کا ذریعہ بنایا جائے۔ بلکہ سیدنا مسیح نے ان کی تلقین فرمائی اورکہا کہ خدا اسی طرح کرتاہے ۔ تم بھی ایسا ہی کرو۔ اس لئے کہ خدا چاہتاہے کہ سب انسان اُس کی روش پرچلیں۔ چونکہ خدا نے تمہارے قصور معاف کئے ہیں۔ تم بھی ایک دوسرے کے قصور معاف کرو۔ چونکہ خدا تم سے رفاقت اور محبت رکھتاہے ۔ تم بھی ایک دوسرے سے رفاقت اور محبت رکھو ۔ ہر قوم قبیلے اورمذہب کے انسان کی خدمت کرو۔اس لئے کہ خدا اپنی براش اور دُھوپ  بلا امتیاز سب انسانوں کے لئے بھیجتاہے۔ اپنے دشمن کو پیارکرو۔اس لئے خدا نے تم کو پیار کیا ہے۔حالانکہ تم اپنی طبعیت سے خدا کے دشمن تھے ، خدا تمہارا باپ ہے۔ اس یقین اور ایمان کے پیش نظر  سب سے نیک برتاؤ کرو۔مسیح کی اخلاقی تعلیم کی بنیاد مذہب ہے۔ تعلیم میں اُس کا مقصد انتہائی درجہ کا روحانی ہے۔ اگر کل انسان خدا کو باپ سمجھیں اوراُس کی مہربانی کا صحیح تصور حاصل کریں۔تویقیناً انسانوں میں میل ملاپ ، خیر خواہی اور یگانگت پیدا ہو۔ خدا ازلی اور ابدی ہے ۔ اُس کی رحمت دائمی ہے۔ سب کچھ بدل جائے ۔مگر وہ بے تبدیل ہے۔ اسی بنیاد پر انسان اپنے سماجی تعلقات کی عمارت کھڑی کرسکتاہے۔

          کیا مذہب کی ضرورت ہے ۔ کیا مذہب ایک لازمی امر ہے ۔ کیا انسانوں کوخدا کی ضرورت ہے ۔ دنیا کی اصل تکلیف کیا ہے ۔ کیا اُس تکلیف کی یہ وجہ نہیں کہ انسانوں نے خدا کوفراموش کردیاہے۔ کیا ہماری تکلیف یہ نہیں کہ ہم نے مادہ پرستی اختیار کر رکھی ہے ۔ اور روح کو نظر انداز کیا ہے۔ ہم نے خدا کی بجائے دولت کی پرستش کی ہے۔ ہم نے اپنی تجاویز پر بھروسہ کیا ہے اور خدا کو موقعہ ہی نہیں دیا۔ ہم نے خدا کو فراموش کردیا ہے۔اوراپنی تدبیروں کی پیروی کی ہے ۔ نتیجہ جس کا یہ ہے کہ ہم نے اپنی زندگی نہایت تلخ بنالی ہے۔ ہماری نجات کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم خدا کی طرف رجوع کریں اوراُسے اپنا مالک اورباپ قبول کریں۔ ہمیں ایسے مذہب کی ضرورت ہے جیسا سیدنا مسیح کا تھا۔جوہم میں نئی روح اورنیا ایمان بھردے۔ہمیں ایسے ایمان کی ضرورت ہے ۔ جس کی بنیاد خدا کی محبت پر رکھی گئی ہو اور جوخدا کوانسانوں کے نزدیک لے آئے۔ اورانسانوں کوخداکی حضوری میں پہنچادے اوراس طرح انسانو ں کو حقیقی رفاقت اورمحبت سے متحد کردے۔

خدا اور سیدنا مسیح کو جاننا ہمیشہ کی زندگی ہے۔

 

Posted in: مسیحی تعلیمات, خُدا, بائبل مُقدس, نجات | Tags: | Comments (0) | View Count: (15109)
Comment function is not open
English Blog