en-USur-PK
  |  
04

سور فینکی عورت کی بیٹی کو بدروحوں کے قبضہ سے شفا بخشنا

posted on
سور فینکی عورت کی بیٹی کو بدروحوں کے قبضہ سے شفا بخشنا

 THE MIRACLES OF CHRIST

معجزاتِ مسیح

23-Miracle   

Jesus Heals a Gentile Woman's

Demon-Possessed Daughter

Matthew 5:21-28

 

سور فینکی عورت کی بیٹی کو بدروحوں کے قبضہ سے شفا بخشنا

۲۳ ۔معجزہ

انجیل شریف بہ مطابق حضرت متی ۵باب ۲۱تا۲۸

مرحوم علامہ طالب الدین صاحب بی ۔ اے

؁ ۱۹۰۵ء

آیت نمبر ۲۱۔پھر جنابِ مسیح وہاں سے نکل کر صور اور صیدا کے علاقہ کو روانہ ہوئے ۔

وہاں سے ۔غالباً کفرناحوم سے نکل کر ۔

آپ کے جانے کا سبب یہ تھا کہ ایک تو چوتھائی ملک کا حاکم ہیرودیس آپ سے حسد کرتا تھا (حضرت متی 14باب1آیت )اور پھر فریسی بھی آپ کی جان کے درپے تھے (حضرت متی 12باب 14آیت ،15باب 1و12آیت )۔لہذا آپ مجبور ہوئے کہ دوسری جگہ جاکر جو کہ ہیرودیس کے حدود سے باہر تھی پناہ گزین ہو۔

لیکن اس سفر کے متعلق جو بات زیر بحث ہے وہ یہ ہے کہ آیا ہمارے آقا ومولا سیدنا مسیح اس موقعہ پر صرف صور اور صیدا کی حدود تک پہنچے یا ملک فینکی کے اندر بھی داخل ہوئے۔ اور جن لفظوں کے سبب بحث برپا ہوتی ہے وہ الفاظ "علاقے "(حضرت متی 15باب21آیت )"سرحدوں "(حضرت مرقس 7باب 24و31آیت اور حضرت متی 15باب 22آیت )ہیں ۔ جس لفظ کا ترجمہ علاقہ کیا گیا ہے اس کے اصل معنے " حصوں" یا "ٹکڑوں"کے ہیں۔ مطابق اس ترجمہ کے آئت کو گویا اس طرح پڑھنا چاہئیے۔ "پھر مسیح وہاں سے نکل کر صور اور صیدا کے حصوں کو روانہ ہوئے ۔" البتہ اس کا مطلب صور اور صیدا کے علاقہ ہی سے ہے ۔ پرانے ترجمہ میں اطراف آیا ہے۔

اب بعض لوگ تو یہ مانتے ہیں کہ ہمارے آقا ومولا سیدنا مسیح یہودیوں کے ملک کی سرحدوں سے پرے کبھی نہیں گئے ۔ وہ حضرت متی کے "علاقے "کو جو آیت 21میں آیا ہے متی کی سرحدوں کے ساتھ جو آیت 23میں مستعمل ہے اور حضرت مرقس کی "سرحدوں "کے ساتھ جو حضرت مرقس 7باب 24آیت میں مذکور ہے مقابلہ کرکے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ وہ صرف سرحدوں تک پہنچے ۔ مگر صور اور صیدا کے علاقہ میں نہیں گئے۔ اور اس تائید میں یہ کہتے ہیں کہ اس کا شخصی کام صرف یہودی ملک کے ساتھ مخصوص تھا۔ او رکہتے ہیں کہ ماسوائے اس کے صاف بتایا گیا ہے کہ جو عورت اس وقت آپ کے پاس آئی وہ سرحدوں سے نکل کر آئی تھی۔

لیکن جو یہ مانتے ہیں کہ وہ صور اور صیدا کے علاقہ میں داخل ہوئے اپنے دعوے کے ثبوت میں کہتے ہیں کہ حضرت متی 15باب 21آیت میں "سرحدوں " کا لفظ نہیں آیا بلکہ "حصوں"کالفظ آیا اور اس کے معنی سرحد کے نہیں ہوتے ۔ بلکہ جہاں جہاں اور جگہ یہ لفظ آیا ہے (حضرت متی 2باب 22آیت ،16باب 13آیت ،حضرت مرقس 8باب 10آیت ،اعماالرسل 2باب 10آیت ،19باب 1آیت ،20باب 2آیت )اور ان مقاموں میں کسی جگہ اس سے سرحد مراد نہیں۔ اس خیال کے ماننے والے اس مشکل کو محسوس کرتے ہیں کہ حضرت متی جو لفظ استعمال کرتے ہیں اس سے تو ملک کا اندرونی حصہ مراد لیا جاسکتا ہے مگر حضرت مرقس 7باب 24آیت میں صاف "سرحدوں"کا لفظ کام میں لاتا ہے۔مگر اس دقت کو دور کرنے کے لئے وہ حضرت مرقس 7باب 31آیت پیش  کرتےہیں جس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ مسیح "پھر صور کی سرحدوں سے نکل کر صیدا کی راہ سے دکپلس کی راہ ہوتے ہوئے گلیل کی جھیل پر پہنچے ۔ گویا صور کی سرحدوں سے نکلنا اور صیدا کی راہ سے جانا ثابت کرتاہے کہ وہ ملک فینکی  کے اندرونی حصہ سے گذرے۔ وہ لوگ جو مسیح کے صور اور صیدا کے علاقہ میں داخل ہونے کو مانتے ہیں کہتے ہیں کہ وہ وہاں پر کام کرنے نہیں گئے تھے۔ لہذا یہ کہنا کہ چونکہ وہ بذات خود صرف بنی اسرائیل میں کام کرنے آیا تھا صور اور صیدا کے علاقہ میں جا نہیں سکتا تھا بڑا زبردست اعتراض نہیں۔

صور اور صیدا ۔ سیدنا مسیح نے ان شہروں کے علاقہ کو غالباً اس لئے چن لیا کہ وہ نزدیک تھا۔ اور یہ شہر اس شرارت کے لئے جو بڑے بڑے شہروں میں ہوا کرتی ہے مشہور تھے اور یہاں بعل کی پوجا کی جاتی تھی ان شہروں کی شرارت کا ذکر اکثر جوئیل ،عاموس ،یسعیاہ اور یرمیاہ نے کیا ہے۔ اور خاص کر صور کی بربادی کا حزقئیل نے کیا ہے (باب 26آیت 28)۔

آیت نمبر ۲۲۔اور دیکھو ایک کنعانی عورت ان سرحدوں سے نکلی اور پکار کرکہا اے مالک ابن داؤد مجھ پر رحم کریں۔ ایک بدروح میری بیٹی کو بری طرح ستاتی ہے ۔

حضرت مرقس اس سے پہلے یہ بھی بتاتے ہیں کہ "وہ ایک گھر میں داخل ہوئے اور نہیں چاہتے تھے کہ کوئی جانے مگر پوشیدہ نہ رہ سکے (حضرت مرقس 7باب 24آیت )جس طرح مشک چھپا نہیں رہتا بلکہ اس کی مہک ہر جگہ پھیل جاتی ہے اسی طرح جنابِ مسیح بھی چھپ نہیں سکتے تھے۔ اور جن لوگوں کو ان کی شمیم خلق نے اپنی طرف کھینچا ان میں سے ایک یہ عورت تھی۔ حضرت متی کہتے ہیں کہ یہ عورت کنعانی تھی اور حضرت مرقس بتاتے ہیں کہ وہ یونانی اور قوم کی سور فینکی تھی (حضرت مرقس 7باب 26آیت )۔

قدیم زمانہ میں فینکی کنعانی کہلاتے تھے (بائبل شریف کتاب قضات 1باب 3آیت ) یعنی وہ اس قوم سے علاقہ رکھتے تھے جنہوں نے بعد میں اس تمام سرزمین کو کنعان کا نام دیا۔ اغلب ہے کہ یہودی یہ نام فینکی کے تمام باشندوں کو دیتے رہے گو ان میں سے جو بعد میں آکر بسے کئی مختلف قوموں کے ہوں گے ۔ حضرت متی کی انجیل کے پڑھنے والے جو بالتخصیص یہودی تھے فوراً لفظ "کنعانی "سے سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ عورت غیر قوموں میں سے تھی۔ لیکن حضرت مرقس جو غیر قوموں کے لئے لکھ رہے ہیں بتاتے ہیں کہ وہ یونانی تھی اور قوم کی سور فینکی تھی۔ ٹرنچ صاحب فرماتے ہیں کہ پہلے لفظ سے اس کا مذہب اور دوسرے سے اس کا حسب نسب ظاہر ہوتا ہے ۔ اور سور فینکی اس واسطے کہا کہ لبیا اورکا رتھج کے فینکوں سے امتیاز کی جائے ۔

سرحدوں سے نکلی ۔ یعنی صور وغیرہ کے علاقہ سے نکلی ۔ اور پکار کر کہا معلوم ہوتا ہے کہ وہ زور سے چلائی تھی اور اس کی تصدیق شاگردوں کے الفاظ سے ہوتی ہے وہ کہتے ہیں "ہمارے پیچھے چلاتی ہے " حضرت مرقس کے بیان سے جو مسیح کے ایک گھر میں داخل ہونے کا ذکر کرتا ہے او رپھر اس عورت کے فی الفور آنے کا حال رقم کرتا ہے ایسا خیال پیدا ہوسکتا ہے کہ گویا جنابِ مسیح کی اور اس عورت کی ملاقات اس گھر میں ہوئی جہاں وہ تشریف رکھتے تھے۔ مگر یہ درست نہیں ہے کیونکہ حضرت متی کی  تحریر کےمقابلہ سے یوں معلوم ہوتاہے کہ اس علاقہ میں آکر پہلے ایک گھر میں اترے ۔ اور پھر جب ایک دن اپنے شاگردوں کے ساتھ جارہے تھے تو یہ عورت مدد کے لئے چلاتی ہوئی آپ کے پیچھے ہولی۔

مجھ پر رحم کریں ۔ غورطلب بات ہے کہ یہ عورت یہ نہیں کہتی کہ میری بیٹی پر رحم کریں بلکہ یہ کہتی ہے کہ مجھ پر رحم کریں۔ اس کی بیٹی  کا دکھ گویا اس کا دکھ ہے ۔ کیا ہم اپنے بیٹے اور بیٹیوں کے روحانی امراض کے لئے ایسے رنجیدہ اور غمگین ہیں کہ گویا ہم خود بیمارہیں۔ اور جنابِ مسیح کے پا س بار بار جاکر کہتے ہیں۔ اے مالک مجھ پر رحم کریں۔ میرے بیٹے یا بیٹی کو یہ بیماری ہے ۔

ابن داؤد۔ ان لفظوں کے استعمال سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جنابِ مسیح کو مسیح موعود سمجھتی تھی۔ اور یہ علم اس کے لئے نا ممکن نہ تھا کیونکہ وہ یہودیوں کے ملک کے پاس رہتی تھی اور غالباً سارپت کی عورت کی طرح سچے خدا کی بندگی اور عبادت کرنے والی تھی۔ اور تعجب نہیں کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ جو صور اور صیدا سے گئے تھے (حضرت مرقس 3باب 8آیت )گئی ہو۔ اور جنابِ مسیح کی باتوں کو سنا ہو۔

ایک بدروح میری بیٹی کو بری طرح ستاتی ہے ۔ حضرت مرقس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لڑکی چھوٹی تھی ۔ چنانچہ وہ کہتےہیں کہ "جس کی چھوٹی بیٹی میں ناپاک روح تھی (حضرت مرقس 7باب 25آیت )ناپاک روحوں پر ہم پہلے ایک دوجگہ بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔

آیت نمبر ۲۳۔مگر جنابِ مسیح نے کچھ جواب اسے نہ دیا۔ اور آپ کے شاگردوں نے پاس آکر آپ سے یہ عرض کی کہ اسے رخصت کردیں کیونکہ وہ ہمارے پیچھے چلاتی ہے۔

وہ عورت آپ کی شہرت سن کر آئی تھی۔ اس نے سنا ہوگا کہ ابن آدم رحمت اور فضل مجسم ہیں۔ اور جو ان کے دردولت پر جاتا ہے خالی ہاتھ نہیں لوٹتا۔ بلکہ وہ خود دعوت دیتے ہیں کہ جو تھکے اور بڑے بوجھ سے دبے ہوئے ہیں میرے پاس آئیں اور میں انہیں آرام دوں گا ۔ لیکن یہاں آکر وہ دگر گوں حالت پاتی ہے ۔ وہ اس کی بات کا جواب تک نہیں دیتے ۔ ٹرنچ صاحب اس موقعہ پر بزرگ کری ساسٹم کے ا لفاظ نقل کرتے ہیں۔ اور وہ یہ ہیں کہ " کلمہ ایک کلمہ نہیں بولتا۔ چشمہ فیض گویا بند ہوگیا ہے ۔ حکیم اپنی ادویات کے دینے سے دریغ کرتا ہے "شاگردآپ سے عرض کرتے ہیں کہ اسے رخصت کردیں ۔ ٹرنچ صاحب کہتے ہیں کہ گویا وہ اپنے تیئں اپنے مالک سے زیادہ نرم دل اور کریم النفس ظاہر کرتے ہیں۔ وہ گویا یہ کہتے ہیں کہ اس کی منت کو سنئیے اور اسے جانے دیجئے مگر اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ درحقیقت ان کی یہ درخواست خود غرضی پرمبنی تھی وہ نہیں چاہتے تھے کہ اس کے چلانے سے لوگ ان کی طرف متوجہ ہوکران کو تکلیف دیں۔ یا وہ کسی طرح معرض خطر میں گرفتار ہوجائیں۔ کیاہم اس سے یہ نہیں سیکھتے کہ ایک قسم کی وہ مدد یا خیرات بھی ہے جس میں دلی محبت شامل نہیں ہوتی۔ بلکہ اس کی جڑ میں یہ غرض  نہاں ہوتی ہے کہ مدد دینے والا اپنا پیچھا چھڑائے ۔ جس طرح بے انصاف قاضی نے بیوہ کا انصاف اس ڈر کے مارے کیا کہ اگر وہ بار بار آتی رہی تومجھے حیران کردے گی اسی طرح بہت دفعہ غریبوں کی مدد کی جاتی ہے تاکہ ہم خود آرام پائیں۔

ایک شخص نے خوب کہا ہے کہ اگر سچ پوچھا جائے تو شاگردوں کی یہ درخواست بجائے اس کے کہ اس عورت کے حق میں مفید ہو درحقیقت اس کے خلاف تھی کیونکہ وہ اسے رخصت کرنے کو کہتے ہیں۔ دوسرے پر معنی الفاظ میں یوں کہیں کہ وہ اسے دعا کرتے ہیں کہ وہ اسے روانہ کردے ۔ ہم کئی باتیں اس عورت کے برخلاف پاتے ہیں جو ایمان کو گویا ایک طرح چکنا چور کرنے والی تھیں۔ مسیح کی ظاہری بے توجہی اس کے خلاف تھی۔ شاگردوں کی دعا اس کے بر خلاف تھی اور مسیح کا جواب جو بعدمیں اس کو ملتا ہے وہ بھی سراسر ہمت پست کرنے والا تھا مگر پھر بھی یہ عورت بے دل نہیں ہوتی ۔

مسیح کی خاموشی اور عورت کا چلانا غور طلب مقابلہ ہے ۔ اس سے عورت کے ایمان نے ترقی کی ۔ اور وہ مضبوط اور ظاہر ہوا۔ اب بھی یہی حال ہے۔ اگر ہم خداوند کی حکمت اور محبت پر بھروسہ رکھ کر مانگتے جائیں تو وہ  جوکچھ ہمارے لئے بہتر سمجھے گا ہمیں دے گا ۔ جب وہ جواب دینے میں دیر کرتا ہے تو اس وقت بھی اس کو ہماری بہتری مدنظر ہوتی ہے ۔ شاگردوں نے مسیح کی ظاہری بے توجہی کی حکمت اور محبت کو نہ پہچانا۔

آیت نمبر ۲۴۔سیدنا مسیح نے جواب میں کہا کہ میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا ۔

جناب مسیح کے اس جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی درخواست کا ضرور کچھ نہ کچھ یہ مطلب تھا کہ وہ اس کی منت کو سن کر اس کا جواب دے ۔ اور ما سوائے اس کے کہ ایک اور سبب بر خلاف اس خیال کے کہ وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ وہ اس کو جانے کا حکم دے یہ ہے کہ انہو ں نے اب تک کبھی اسے کسی کو خالی ہاتھ بھیجتے نہیں دیکھا تھا۔ تاہم کامل محبت  ان کے دل میں نہ تھی۔ اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا۔ مقابلہ کریں (حضرت متی 10باب 6آیت کے ساتھ اور یسعیاہ 53باب 6آیت ،یرمیاہ 50باب 6آیت ،حزقیل 34باب 5آیت )میں بھی یہ الفاظ آئے ہیں۔ ہمارے مالک نے اپنا کلام قریبا ً بنی اسرائیل یا یہودیوں پر ہی محدود رکھا ۔ اگو آ پ نے یہ بھی کہا کہ میری اور بھیڑیں بھی ہیں۔ جو اس بھیڑ سالہ کی نہیں ہیں (حضرت یوحنا 10باب 16آیت )پس یہ اعزاز یہودی قوم کو حاصل ہوا کہ پہلے انجیل کی خوش خبری انہیں سنائی جائے ۔ (حضرت لوقا 24باب 47آیت ،اعماالرسل 13باب 46آیت ،خط اہل ِ رومیوں 1باب 16آیت )پر ہمارے مالک نے بار بار اس بات کو ظاہر کیاکہ یہ تخصیص مدت تک نہ رہے گی ۔ (حضرت متی 8باب 11آیت ،10باب 18آیت ،21باب 43آیت ،22باب 9آیت ،24باب 14آیت )۔

او رہم جانتے ہیں کہ آپ نے کئی  غیر قوم بیماریوں کو شفا بخشی ۔(حضرت متی 4باب 24آیت ،15باب 30آیت )پر یہ سب یہودیوں کی سرزمین میں واقع ہوا۔ مگر اب وہ جیسا اوپر بتایا گیا غیر قوموں کی سرزمین میں تھا لہذا وہ عام طور پر اپنا کام شروع نہیں کرسکتے تھے۔ یہودیوں کی سرزمین میں ہی فقط کام کرنے کا یہ مطلب تھا کہ وہ اس قوم کو تیار کریں تاکہ اس کے وسیلے دنیا کی قوموں کو اس کی انجیل کی برکت پہنچائی جائے (خط اہلِ رومیوں  5باب 8تا 10آیت )اس کی یہ تجویز تھی کہ جب میرا شخصی کام تمام ہوجائے تب میرے شاگرد یروشلم میں اور تمام یہودیہ اور سامریہ میں اور دنیا کے کناروں تک میر ے گواہ ہوں (اعماالرسل 1باب 8آیت )اگر جناب مسیح ا س کام کو آپ نے اپنے رسولوں کے لئے رکھ چھوڑا تھا اور جسے وہ اپنے کام کاایک حصہ سمجھتے تھے (حصرت یوحنا 10باب 16آیت )پہلے ہی سے شروع کردیتے تو مسیح کے کام کی خاصیت اور مقصد کے بر خلاف ہوتا ۔ یہودی قوم کی تیاری اس خیال کو قبول کرنے کے لئے غیر قومیں بھی مسیح کی بادشاہت میں حصہ پائیں گی بہت آہستہ آہستہ ہوئی جیسا کہ اعمال کی کتاب سے روشن ہے اگر مسیح اپنا کام یک بار گی غیر قوموں کے درمیان شروع کردیتے تو یہودی بالکل منحرف ہوجاتے ۔

لیکن اس عورت کے سچے  ایمان اور فروتن اصرار کے سبب آپ نے اس ملک میں بھی معجزہ دکھایا اور اس کی مدد کی ۔ "نہیں بھیجا گیا " جناب مسیح کے ان الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ گویا وہ پروردگار کے ماتحت ہیں۔ اوریہ مقام ان مقاموں میں سے ہے جہاں جنابِ مسیح جو الہٰی انسان اور درمیانی تھے ۔ اپنے عہدے اور کام کے لحاظ سے ایسا کلام استعمال کرتے ہیں پس یہ اس خیال کے برخلاف نہیں ہے کہ وہ پروردگار کے ہمتا (یعنی مثل)بھی تھا (حضرت یوحنا 2باب 1آیت ،خط اہل رومیوں 9باب 5آیت )۔

آیت نمبر ۲۵۔مگر اس نے آپ کو سجدہ کیا اور کہا ۔ اے مالک میری مدد کریں۔

انہیں سجدہ کیا۔ جھک کر اور اگر کر آپ کی تعظیم کی  پر اس سے غا لباً یہ مطلب نہیں کہ آپ کو خدا سمجھ کر سجدہ کیا۔  فعل سجدہ کیا ماضی استمراری ہے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آپ کو سجدہ کرتی رہی۔ اب جنابِ مسیح اس کو وہی جواب دیتے ہیں اور زیادہ سختی کے ساتھ جو آپ کے شاگردوں کو دیا تھا۔ چنانچہ ۔

آیت نمبر ۲۶۔آپ نے جواب میں کہا کہ لڑکوں کی روٹی لے کر کتوروں کو ڈال دینی اچھی نہیں۔

اب ہمارے مالک جیسا ہم نے اوپر کہا اس عورت کو بھی یہ بتاتے ہیں کہ مسیح کی بادشاہت کے فوائد یہودیوں کے ساتھ خاص ہیں۔ البتہ ا سکا مطلب جیسا ہم اوپر بتا آئے ہیں یہ بھی تھا کہ آپ کی شخصی خدمت اسی قوم کے لوگوں کے درمیان محدود تھی۔ زاں بعد آپ کےشاگردوں کے وسیلے مسیحی برکتیں اور قوموں کے پاس پہنچنے کو تھیں۔

آیت نمبر ۲۷۔اس نے کہا ہاں مالک کیونکہ کتورے بھی ان ٹکڑوں میں سے کھاتے ہیں جو ان کے مالکوں کی میز سے گرتے ہیں۔

اس عورت کے جواب سے نہ صرف ا س کی فروتنی اور ایمان مترشح ہے بلکہ اس کی خدادا دانائی اور ہوشیاری بھی ٹپکتی ہے۔ شائد یہ دانائی اور ہوشیاری مادرانہ محبت اور درد سے پیدا ہوئی گی کیونکہ وہ اس سخت کلام کوجو آپ کی گویا دل شکنی اور مایوسی کے لئے کہا گیا تھا ایک دلیل اپنی بہبودی اور بہتری کے لئے بنالیتی ہے ۔

آیت نمبر ۲۸۔اس پر جنابِ مسیح نے جواب میں اس سے کہا اے عورت تیرا بڑا ہی ایمان ہے جیسا تو چاہتی ہے تیرے لئے ویساہی ہو۔ اور اس کی بیٹی نے اسی گھڑی شفا پائی۔

سیدنا مسیح اس جگہ اس عورت کے ایمان کی تعریف اسی طرح کرتے ہیں کہ جس طرح آپ نے صوبہ دار کے ایمان کی تعریف کی تھی (حضرت متی 8باب 10آیت )وہ بھی غیر قوم تھا۔ دنیا ہمیشہ جہاں بزرگی اور عظمت دیکھتی ہے تعریف کرتی ہے۔ لوگوں کی تیزی عقل جودت طبع متانت مزاج خوبے علم اور کثرت مال اور شجاعت بے مثال کے لئے تعریف کی جاتی ہے۔ مگر مسیح یہاں اس عظمت کی جو حقیقی عظمت ہے اور ایسے لفظوں میں جن سے بڑھ کر اور وسیع نہیں ہوسکتے تعریف کرتے ہیں حضرت مرقس میں ہے "اس کلام کے سبب جا ۔ " غالباً یہ لفظ جنابِ مسیح نے اس کے ایمان کی تعریف کرنے کے بعد فرمائے ہوں گے ۔ حضرت متی کہتےہیں کہ "جیسا چاہتی ہے تیرے لئے ویسا ہی ہو "ٹرنچ صاحب فرماتے ہیں کہ "وہی جس کے سلوک سے پہلے معلوم ہوتا تھا کہ گویا اس پر ذرا مہربانی نہیں کرے گا۔ اب اپنے فضل کے گنج کے دروازے کھول دیتا ہے اور فرماتاہے کہ جو تجھے چاہئیے لے جا۔ کچھ عرصہ کے لئے اس نے اس کو وہ سختی دکھائی جو یوسف نے  اپنے بھائیوں کی دکھائی تھی۔ مگر وہ یوسف کی طرح اس سختی کو دیر تک کام میں نہ لاسکے۔ یا یوں کہیں کہ جس قدر دیر کی ضرورت تھی اسی قدر دیر لگائی اور اس سے ایک منٹ زیادہ تاخیر کرنا روانہ رکھا۔ پس اس عورت کے جواب کے بعد جو ایسے ایمان سے دیا گیا جس میں شک نہ تھا تو خیر کرنے کی ضرورت نہ رہی ۔"ہمارا خداوند اس کی فروتنی کی تعریف نہیں کرتا گو وہ بہت بڑی صفت تھی۔ کیونکہ وہ ایمان سے خاکساری پیدا ہوتی ہے ۔ اور دونوں حالتوں میں یہ اولاد اپنی اپنی اصل جڑ کی تقویت کا باعث ہوتی ہے ۔ اس کے ایمان سے وہ اثر پیدا ہوا جو کہ یعقوب کے اصرار کے مطابق تھا۔ وہ بھی اسی ازلی کلمہ سے ایمان کی کشتی لڑا (توریت شریف کتاب پیدائش  32باب 24آیت)اس وقت یہ ازلی مجسم نہ تھا مگر اب مجسم تھا۔

اسی گھڑی ۔ (دیکھیں حضرت متی 8باب 13آیت 9باب 10آیت )حضرت مرقس یہ بھی بتاتے ہیں کہ "اس نے اپنے گھر میں جاکر دیکھا کہ لڑکی پلنگ پر پڑی ہے اور بدروح نکل گئی ہے جو آرام اس کو ایک مدت سے نصیب نہیں ہوا تھا اب مل گیا۔

نصیتحیں اور مفید اشارے

1۔سیدنا مسیح صور اور صیدا جاتے ہیں (1)ہیرودیس کی دشمنی اور حسد کے سبب سے (2)اپنے ہم وطنوں کے منصوبوں کے سبب سے مگر جہاں جاتے ہیں وہیں نیک کام کرتے ہیں (حضرت متی 14باب 14آیت ،15باب 28تا 30آیت ،17باب 18آیت )۔

2۔سور فینکی عورت مسیح پر ایمان لاتی ہے مسیح کے سخت کلام کی برداشت کرتی ہے مسیح کے انکار کو ایک زور آور دلیل میں تبدیل کرتی ہےاپنی مراد پاتی اور اعلیٰ قسم کی تعریف سے خوش وقت ہوتی ہے۔

3۔جب مسیح کے چہرے پر خاموشی اور سختی کے آثار نمایاں ہوتے ہیں اس وقت بھی محبت اس کے دل میں نہاں ہوتی ہے ۔

4۔دیکھیں یہ عورت اپنی بیٹی کے دکھ کو کس طرح اپنا بناتی ہے۔ کیا ہم اپنے بچوں کی روحانی بیماریوں کو ایسا محسوس کرتے ہیں کہ گویا ان کا مرض ہمارا مرض ہے۔ یہ سبق ماں باپ کے لئے نہائت ضروری ہے ۔

5۔مسیح کی دیر ہمیشہ پر مطلب ہوتی ہے ۔ اچھے نتیجے پیدا کرتی ہے۔ مریم اور مارتھا چاہتی ہیں کہ وہ جلد آئے اور لعزر کو بیماری سے بچائے پر اگر وہ دیر نہ کرتے تو ہم کب ا سکی زبان سے وہ کلمات سنتے جو اس نے لعزر کے مرنے کے بعد آکر بیان فرمائے۔ "قیامت اور زندگی میں ہوں۔ "

6۔اگر یہ عورت پہلی دفعہ مانگ کر اپنی مراد پالیتی تو دعا کے اصرار کی خوبی اس پر ظاہر نہ ہوتی ۔لیکن اب اس نے سیکھ لیا کہ اگر ایک دفعہ کے مانگنے سے جنابِ مسیح نہ سنے تو مجھے بہ دل نہ ہونا چاہئیے بلکہ اور بھی سرگرمی سے مانگنا چاہیے ۔

7۔دیکھوسفارشی دعا کیسا زور رکھتی ہے۔ وہ اپنی بیٹی کے لئے دعامانگتی ہے ۔ اس کی دعا سنی جاتی ہے ۔ پر اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھیں کہ اگر اور ہمارے لئے دعا کریں تو ہم اسی پر اکتفا نہ کریں۔ بلکہ خود بھی سرگرمی سے دعا کرنا نہ چھوڑیں۔ اس عورت کے لئے رسولوں نے دعا کی مگر اس نے خود دعا کرنا نہ چھوڑا اور ہم دیکھتے ہیں کہ اس دعا نے جو اس نے خود کی بڑا کام کیا ۔ 

Posted in: مسیحی تعلیمات, بائبل مُقدس, یسوع ألمسیح, خُدا, معجزات المسیح, نجات | Tags: | Comments (0) | View Count: (14759)
Comment function is not open
English Blog