en-USur-PK
  |  
04

ایک شخص کو جس کا ہاتھ سوکھ گیا تھا شفابخشنا

posted on
ایک شخص کو جس کا ہاتھ سوکھ گیا تھا شفابخشنا

THE MIRACLES OF CHRIST

معجزاتِ مسیح

19-Miracle   

Jesus Heals a Man's Withered Hand

John 9:1-12

 

 

ایک شخص کو جس کا ہاتھ سوکھ گیا تھا شفابخشنا

۱۹ ۔معجزہ

انجیل شریف بہ مطابق حضرت متی ۱۲باب ۹تا۱۳

مرحوم علامہ طالب الدین صاحب بی ۔ اے

؁ ۱۹۰۵ء

یہ معجزہ سبت کے روز وقوع میں آیا۔ مگرہم جانتے ہیں کہ یہ پہلا معجزہ نہ تھا جو سبت کے دن واقع ہوا بلکہ جو معجزہ ہم نے ابھی ختم کیا ہے وہ بھی سبت کے دن سرزد ہوا تھا۔ پر چونکہ یہ اچھا موقع ہے اس لئے بہتر معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس جگہ اس بات کا ذکر کریں کہ ہمارے مولا سیدنا مسیح یہودی سبت کی نسبت کیا رائے رکھتے تھے۔ اس معجزے کےمتعلق اور نیز اس بحث کے متعلق اس معجزے سے پہلے حضرت متی کی انجیل میں پائی جاتی ہے کہ ہمارے آقا ومولا سیدنا مسیح نے اس مضمون پر اپنے خیالات ظاہر کئے اور نہائیت پر معنی الفاظ اپنی زبان مبارک سے بیان فرمائے ۔ جب ہم حضرت متی کے ۱۲باب کی چند آیات ہٹ کر پڑھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ فریسی ہمارے مولا کے سامنے آپ کے شاگردوں پر سبت توڑنے کا الزام لگاتے ہیں۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ "آپ کے شاگرد وہ کام کرتے ہیں جو سبت کے دن کرنا روا نہیں ۔"اس الزام کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے سبت کے دن بالیں توڑ کر کھائی تھیں۔ پر یاد رہے کہ الزام یہ نہ تھا کہ انہوں نے کسی غیر کی ملکیت کو لوٹ لیا ہے ۔ کیونکہ بالیں کھانا روا تھا ۔(توریت شریف کتاب استشنا 23باب 25آیت )پس الزام یہ تھا کہ انہوں نے سبت کے روز بالیں کھا کر چوتھے حکم کو توڑ ڈالا ہے ۔

اب جناب مسیح ان کوبتاتے ہیں کہ میرے شاگردوں کے فعل کو کس نظر سے دیکھنا چاہئیے ۔دوسرے لفظوں میں یو ں کہیں کہ وہ ان کو سکھاتے ہیں کہ شریعت کے حرف کو نہیں بلکہ روح کو دیکھنا چاہیئے۔ اور اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے وہ دو مثالیں پیش کرتے ہیں ان میں سے ایک وہ مشہور تاریخی واقعہ تھا جو حضرت داؤد کی زندگی میں سرزد ہوا جب کہ وہ حضرت ساؤل کے حضور سے بھاگ نکلے (بائبل شریف 1سیموئیل 21باب 1تا 6آیت )دوسری مثال ہیکل (بیت الله)کی خدمات سے علاقہ رکھتی تھی ۔ پہلی مثال ان کے نزدیک اس لئے بڑی وقعت رکھتی تھی کہ حضرت داؤد ایک نبی اور نیک بادشاہ سمجھے جاتے تھے۔ ہمارے مولا فرماتے ہیں کہ حضرت داؤد نے سبت کے روز پاک روٹی لی اور کاہن (امامِ اعظم)نے ان کو دی پر تم ان کاموں کی نکتہ چینی نہیں کرتے ۔ دوسری مثال ہیکل کی عبادت اور خدمت کے ساتھ علاقہ رکھتی تھی اور اس لئے پہلی کی نسبت ایک طرح زیادہ زور آور تھی کیونکہ اس کا تعلق شریعت کے اس حصہ سے تھا جو لاویوں کی خدمات سے علاقہ رکھتا تھا جناب ِ مسیح کے خیالات کو اس مثال کے متعلق یوں بیان کرسکتے ہیں۔ گویا وہ یہ کہتے ہیں کہ "عملی طور پر تم خود اس بات کو تسلیم کرتے ہو کہ سبت کے آرام کو بڑی خدمت کے واسطے یعنی ہیکل کی خدمات کے واسطے ترک کردینا جائیز ہے اور جس اصول کے پابند ہوکر تم ایسا کرتے ہو وہ یہ ہے کہ چھوٹی خدمت کو بڑی خدمت پر تصدق کرنا واجب ہے ۔ چنانچہ تم دیکھتے ہو کہ قربانیاں اور ان کے لوازمات سبت کے روز برابر جاری رہتے ہیں ۔ (توریت شریف کتاب گنتی 28باب 8تا 9آیت )اور جو کچھ  ان کی تکمیل کے لئے ضروری ہوتا ہے وہ کیا جاتا ہے۔ اور کاہن ان سب کاموں  کو انجام دیتے ہیں پر کوئی ان کو سبت کے توڑے والے نہیں کہتا۔ بلکہ اگر وہ ان خدمات کی انجام دہی سے غافل ہوجائیں تو سبت کے توڑنے والے کہلائیں ۔"

اور پھر یہ خیال کرکے مبادافریسی یہ کہیں کہ ہیکل کی عبادت کجا اور آپ کے شاگرد وں کا سبت کے روز بالیں توڑ کر کھا نا کجا ۔چہ نسبت  خاک رابا عالم پاک ۔ ان دونوں باتوں کا آپس میں کیا رابطہ ہے ؟اس اعتراض کو پہلے ہی سے محسوس کرکے اس طرح کا جواب دیتا ہے ۔ "یہاں وہ (سیدنا مسیح )ہے جو ہیکل سے بڑا ہے۔اب ہم دیکھیں گے کہ یہ الفاظ کس طرح ان کا منہ بند کردیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ تھاکہ شائد تم میرے الفاظ پر یہ اعتراض کرو گے کہ ہیکل اور ہیکل کی خدمات ایک نہائت  افضل اور بزرگ تر معاملہ ہے  لہذا  ان میں سبت کے روز مشغول ہونا اور بات ہے پر آپ کے شاگردوں کا بالیں کھانا دوسری بات ہےپر میں تمہیں بتاتا ہوں کہ میں کس طرح ان دونوں باتوں میں نسبت قائم کرتا ہوں اور وہ اس طرح کہ جب ہیکل کے خادموں کی خدمات سبت کے روز ناواجب نہیں سمجھی جاتی ہیں۔ تو میرے خادموں کی خدمات بھی ناجائز نہ سمجھنیی چائہیے کیونکہ "میں تو ہیکل سے بڑا ہوں۔"میرے خادموں نے جو کچھ کیا وہ میری خدمت کے لئے کیا اور اس خدمت میں ایسے مصروف تھے کہ انہیں اتنی فرصت بھی نہیں ملی کہ اپنا کھانا تیار کریں۔اور جب کہ وہ جو ہیکل کی خدمات میں مشغول ہیں جو سچی اور حقیقی ہیکل کا صرف ایک سا یہ یا نمونہ ہے۔ سبت کے روز کام کرنے سے سبت کو توڑتے نہیں بلکہ اس کی توقیر کرتے ہیں تو کس قدر زیادہ وہ سبت کی عزت کرتے ہیں جو اس ہیکل کی خدمت میں مشغول ہیں جو ہاتھ سے نہیں بنائی گئی۔ تم کلام الله سے واقف ہو اور ان کی بہتیری چھان بین کرتے ہومگر ان کے اصل مطلب سے واقف نہیں اگر ہوتے تو اس کے معنی جانتے کہ "میں قربانی نہیں بلکہ رحم پسند کرتا ہوں تو بے قصوروں کو قصور وار نہ ٹھہراتے ۔"یہ مقام صحیفہ حضرت ہوسیع  6باب 7آیت سے اقتباس کیا گیا ہے۔

جناب ِمسیح ان کو بتا نا چاہتے ہیں کہ اے یہودیواگر تم جانتے کہ حقیقی خدمت کسے کہتے ہیں کہ تو تم یہ بھی جانتے کہ میرے شاگرد وہی خدمت بجالار ہے ہیں۔ کیونکہ گنہگاروں کی روحوں کوجو بربادی کے چنگل میں گرفتار ہیں بچانے کے لئے ایسے رحم اور محبت سے کام کررہےہیں کہ انہیں اپنا کھانا تک یاد نہیں رہتا ۔ اور اسی واسطے انہوں نے چلتے ہوئے بالیں توڑیں۔ ان کا قصور (جو تمہارے زعم میں قصور ہے ) جو محبت اور رحم کے سبب سرزد ہوا تمہاری بے مہر اور سخت گیرغیرت سے خدا کو زیادہ پسند ہے ۔

اب حضرت متی اس معجزے کو جو اس وقت زیر نظر ہے اسی واقع کے ساتھ مربوط کرتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہےکہ گویا جس سبت کے روز بحث مذکورہ ہذآ اور بحث مذکورہ بالا ایک ہی سبت کے روز وقوع میں نہیں آئے ۔ پر ہم یاد رکھیں کہ اس فرق کو ہم اختلاف نہیں کہہ سکتے ۔ کیونکہ حضرت متی میں کوئی بات ایسی نہیں پائی جاتی جو حضرت لوقا کے بیان کی تردید کرتی ہو کیونکہ حضرت متی ترتیب وقت کا پابند نہیں ہے۔ حضرت مرقس 3باب 7آیت سے معلو م ہوتا ہے کہ یہ جگہ جہاں یہ معجزہ واقع ہوا گلیل میں واقع تھی مگر اس سے بڑ ھ کر اس کی تخصیص نہیں کی جاتی ۔

آیت نمبر ۸۔اور وہ(یعنی سیدنامسیح )وہاں سے چل کر ان کے عبادت خانہ میں گئے ۔

یہ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں کہ یہ عبادت خانہ گلیل میں واقع تھا یہ معجزہ بھی کئی اور معجزات کی مانند عبادت خانہ میں کیا گیا ( مثلا حضرت لوقا 13باب 11آیت ،حضرت مرقس 1باب 2تا 3آیت )۔

آیت نمبر ۹۔اور دیکھو وہاں ایک آدمی تھا جس کا ہاتھ سوکھا ہوا تھا۔

حضرت لوقا ہمیں بتاتے ہیں کہ اس کا دہنا ہاتھ سوکھاتھا۔ اس بیماری کی نسبت بعض کا خیال ہے کہ یہ وہ بیماری تھی جسے سوکھے کی بیماری کہتے ہیں اور اس شخص کی حالت میں اس کا اثر صرف ایک ہی عضو میں ہوا تھا۔ یہ بیماری بہ سبب ناقص غذا یا قوت تغذیہ کے ضعف سے پیدا ہوتی ہے ۔ اس شخص کو بھی یہی بیماری تھی اور اس کے سبب سے اس کا ہاتھ  بالکل مردہ ہوگیا تھا۔ یعنی اس میں کسی طرح کی حس وحرکت نہ رہی تھی۔ لہذا انسان اس کو نیچرل علاج سے ہر گز شفا یا ب نہیں کرسکتا تھا۔ دیکھو اس کا ہاتھ سوکھ گیا تھا سو دہنا ہاتھ تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ جس ہاتھ سے وہ اپنی روزی کماسکتا تھا وہی جاتا رہا تھا۔

آیت نمبر ۱۰۔انہوں نے اس پر الزام لگانے کے ارادے سے یہ پوچھا کہ کیا سبت کے دن تندرست کرنا روا ہے۔

تینوں راویِ انجیل  کے بیان کےمقابلے سے معلو م ہوتاہے کہ اس سوال کی نسبت ان میں کچھ کچھ فر ق پایا جاتا ہے حضرت متی سے ظاہر ہوتاہے کہ گویا سوال فریسیوں نے کیا مگر اس کے برعکس حضرت مرق اور حضرت لوقا سے یہ معلو م ہوتا ہے کہ یہ سوال جنابِ مسیح نے کیا۔ کیاہمیں اس اختلاف کہیں؟نہیں ۔کیونکہ دونوں بیانوں میں بآسانی تطبیق دکھائی جاسکتی ہے۔ اور وہ اس طرح کہ پہلے فریسی اس سے پوچھتے ہیں کہ " کیا سبت کے دن تندرست کرنا روا ہے۔"مسیح ان کے سوال کا جواب ایک اور سوال میں دیتے ہیں اور وہ اکثر ایسا کیاکرتے تھے (دیکھو حضرت متی 21باب 24آیت )اگر ہم فریسیوں کے سوال کو مسیح کے سوال کے ساتھ جو لوقا میں پایا جاتا ہے ملا کر پڑھیں تو بخوبی معلوم ہوجائے گا کہ مسیح ان سے یہ پوچھتے ہیں کہ آیا سبت کے دن نیکی کرنی روا ہے یا بدی کرنی جان بچانا یاہلاک کرنا(حضرت لوقا 6باب 9آیت )اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پہلے فریسیوں نے آپ سے یہ سوال کیا تھا کہ کیا سبت کے روز شفا بخشنا روا ہے ؟جنابِ مسیح ان کو جواب دیتے ہیں یانہیں مگر میں تم سے پوچھتا ہو ں کہ سبت کے دن نیکی کرنی روا ہے یابدی کرنی ؟یہ سوال اس کا جواب ہے۔ اور بات یاد رکھنے کے قابل ہے اور وہ یہ کہ حضر ت مرقس اور حضرت لوقا بتاتے ہیں کہ "فریسی آپ کی تاک میں تھے"اب حضرت متی اس بات کا ذکر نہیں کرتے ۔ پر اس کی خاموشی سے حضرت مرقس اور حضرت لوقا کے بیان کی تردید یا تکذیب نہیں ہوتی۔ حضرت متی صرف اس بات کا ذکر کرتا ہے کہ وہ اس پر الزام لگا نا چاہتے تھے۔ کہاں ؟شائد عدالت کے سامنے (حضرت متی 5باب 21آیت )اس سے غالباً وہ عدالت گا ہ مراد ہوگی جو خاص ان کے شہر میں لوکل طور پر موجود تھی۔

آیت 11،12۔اس نے ان سے کہا تم میں سے ایسا کون ہے جس کی ایک بھیڑ ہوا اور وہ سبت کے دن گڑھے میں گرجائے تو وہ اسے پکڑ کر نہ نکلالے۔ پس آدمی کی قدر توبھیڑ سے بہت ہی زیادہ ہے اس لئے سبت  کے دن نیکی کرنی روا ہے۔

ہم اوپر دیکھ آئے ہیں کہ جب بالیں توڑنے کے موقعہ پر سبت شکنی کا الزام جنابِ مسیح کے شاگردوں پر لگایا گیا۔ تو آپ نے ان کی بریت کے لئے دو مثالیں پیش کیں تاکہ ان کودکھا ئے کہ بعض ایسے کام ہیں جن کے کرنے سے سبت نہیں ٹوٹتا ۔ اب اس جگہ وہ ان کے رواج اور برتاؤسے ایک اور مضبوط دلیل ان کے سامنے پیش کرتا ہے کہ ان کے منہ بند کرے۔ واضح ہو کہ یہ دلیل صرف حضرت متی قلمبند کرتے ہیں ا ور حضرت لوقا اس قسم کی دلیلیں دوسری جگہ رقم کرتے ہیں ۔(حضرت لوقا 13باب 15آیت ،15باب 5آیت )حضرت مرقس بتاتے ہیں کہ (دیکھو حضرت مرقس 3باب3آیت)کے جنابِ مسیح  نے اس کو حکم دیاکہ وہ بیچ میں کھڑا ہوجائے شائد اس لئے کہ دیکھنے والوں کے دل میں اس کی طرف ہمدردی پیدا ہو۔ اور وہ اس کی شفا کی ضرورت اور درستی کو محسوس کریں۔ "ایک بھیڑ ہو "سیدنا مسیح کا مطلب ہے کہ ایک بھیڑ جو آدمی کے مقابلہ میں کچھ حقیقت نہیں رکھتی جب گڑھے میں گرجاتی ہے تو اس کا مالک اس کو سبت کے دن باہر نکال لاتا ہے۔ پس اگر آدمی جو بھیڑ سے ہزارہا درجہ افضل ہے شفا یا ب کیا جائے تو اس کو نکالنا کیا عیب کی بات ہے کہتے ہیں تالمود (یہودی احادیث کی کتاب )میں طرح طرح کے خیالات اس مضمون پر لکھے ہوئے ہیں مثلا بعض ربی یہ مانتے تھے ک اگرکوئی جانور سبت کے روز گڑھے میں گرجائے تو اسے وہاں صرف چارہ دینا چاہئیے پر اور کچھ نہیں کرنا چاہیئے۔ پھر بعض  ربی یہ سکھلاتے تھے کہ کوئی چیز اس کے پاؤں کے نیچے رکھ دینی چاہئے اور اگر وہ آپ ہی نکل آئے تو مضائقہ نہیں بعض کی یہ رائے تھی کہ اسے ذبح کرنےکی نیت سے نکال لینا چاہیئے  خواہ بعد میں نیت تبدیل ہی ہوجائے۔ غرضیکہ اخلاق کو ایک مجموعہ دستورات بنانے کا نتیجہ ہوا کہ لو گ طرح طرح کی غلط بیانیوں میں گرفتار ہوگئے تھے۔ مگر باوجود یہ کہ سبت کے متعلق طرح طرح کی تعلیمیں ربیوں نے ایجا د کردی تھیں پھر بھی کوئی مالک یہ نہیں چاہتا تھاکہ میری بھیڑ گڑھے میں گری رہے بلکہ نکال ہی لیتا تھا۔ ایڈرشام صاحب فرماتےہیں کہ اس میں شک نہیں کہ ضرور ہر آدمی جس کی بھیڑ گڑھے میں گرتی تھی کوئی نہ کوئی صورت نکال لیتا تھا تاکہ وہ وہاں سے نکالی جائے حالانکہ (رسمی) شریعت جناب مسیح کے وقت ایسی سختی سے مانی جاتی تھی جیسی کہ تالمود میں سختی  سے بیان کی گئی ہے۔"

بس آدمی کی قدر تو بھیڑ سے بہت بہتر ہے۔ یہ نتیجہ ہے ان دعوؤں کا جو اوپر کئے گئے جناب  مسیح فرماتے ہیں کہ گوبھیڑ کچھ حیثیت نہیں رکھتی مگر تاہم اس کا مالک اس کو ضرور سبت کے روزگڑھے سے نکال لیتا ہے۔ اب آدمی تو اس سے کہیں افضل اور بزرگ تر ہے ۔ اسی قسم کی تاویلیں ہمارے مولا اکثر دیتے ہیں (حضرت متی 6باب 26آیت اور 10باب 29تا 31آیت )اور یوں انسان کی فضیلت جانوروں پر دکھاتے ہیں۔ حضرت مرقس اور حضرت لوقا سے جیسا ہم اوپر بیان کر آئے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ جناب مسیح نے خود ان سے سوال کیاکہ سبت کے روز نیکی کرنی روا ہے  یا بدی کرنی ۔ یہ سوال جو آپ نے ان سے الٹ کرکیا سارا بوجھ ان پر ڈال دیتے ہیں اور ان سے طلب کرتے ہیں کہ وہ فیصلہ کریں کہ سبت کے دن کیا کرنا روا ہے۔ وہ ہمدردی دکھانے کو نیکی اور اس  سے غافل رہنے کو بدی کہتے ہیں اور یوں ان کوقائل کرتے ہیں کہ ہمدردی اور بھلائی کے کاموں سے سبت نہیں ٹوٹتا بلکہ اس کی توقیر ہوتی ہے۔ اور ہمدردی کرنا نا روا نہیں بلکہ نہ کرنا روا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جب تم اپنی بھیڑ وں کو نہیں چھوڑتے تو میں سچا گڈریا ہوں کس طرح اپنی بھیڑ کو ایک ذی روح انسان کو جسے باپ نے مجھے دیا ہے اور جو عام بھیڑوں سے کہیں بڑ ھ کر ہے۔ نہ بچاؤں ؟تم نے مجھ سے پوچھا کہ کیا سبت کے روز شفا بخشنا روا ہے ۔ میں اس کا یہ جواب دیتا ہوں کہ سبت کے روز چونکہ نیکی کرنا روا ہے اس لئے تندرست کرنا بھی روا ہے۔ حضرت مرقس ہمیں بتاتے ہیں کہ وہ یہ سن کر "چپ رہے "لاجواب ہوگئے ۔ آپ کی دلیل کا جواب نہ دے سکے۔

آیت نمبر ۱۳۔تب جنابِ مسیح نے اس آدمی سے کہا کہ اپنا ہاتھ بڑھا اس نے بڑایا اور دوسرے ہاتھ کی مانند ہوگیا۔

یہاں ہمارے آقا ومولا سیدنا مسیح کوئی خارجی وسیلہ کام میں نہیں لاتے ۔ صرف اپنے کلام سے اسے شفا بخشتے ہیں۔ اور فریسیوں نے دیکھا ہوگا کہ ہم اسے سبت شکنی نہیں کہہ سکتے  کیونکہ سیدنا مسیح نے کوئی چیز استعمال نہیں کی بلکہ صرف اپنے کلام کی تاثیر سے اسے اچھا کردیا ہے۔

حضرت مرقس اور حضرت لوقا سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ان کی سخت دلی کے سبب غمگین ہوکر اور چاروں اطراف ان پر غصے سے نظر کرکے اس آدمی سے کہا اپنا ہاتھ بڑھا وغیره(حضرت مرقس 3باب 5آیت )یہاں ہم غم اور غصہ دونوں ایک ہی سینے میں پاتے ہیں۔ مگر اسے اجتماع ضدین نہیں کہہ سکتے ۔ بلکہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کے دل میں جو کامل محبت اور کامل پاکیزگی تھی گنہگار کے سبب غم کھانا اور گناہ کے سبب غصے ہونا دونوں جذبے پہلو بہ پہلو پائے جاتے ہیں۔ چونکہ انسان خدا کی مخلوق ہے لہذا وہ اس کے لئے غمگین تھا۔ مگر گناہ کے سبب جو شیطان کی افترا پردازی سے پیدا ہوہے غصہ کرتا تھا۔ پس مسیح کا یہ غصہ وغصہ نہ تھا جو انسان انسان کے خلاف ظاہر کیاکرتا ہے اور جس کی وجہ سے وہ اپنے ابنائے جنس کو نقصان پہنچانے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔

اس مریض نے مسیح کا کلام سنا اور شفا یافتہ ہوگیا۔ اسے ہاتھ بڑھانے کا حکم ہوا اس نے بڑھایا اور کامل شفا پائی۔

حضرت لوقا بتاتے ہیں کہ وہ آپے سے باہر ہوکر " پرانے ترجمہ میں ہے " دیوانگی سے بھر کر "(حضرت لوقا 6باب 11آیت )کہنے لگے دیکھو یہودیوں کی دشمنی اعلیٰ درجہ کو پہنچ گئی کیونکہ نہ صرف اس نے ان کی روائتوں وغیرہ پر حملہ کیا بلکہ انہیں سب کے سامنے شرمندہ کیا۔ اب اس دیوانہ پن کی حالت میں وہ چاہتے ہیں کہ جس طرح ہوسکے مسیح کو جان سے مارڈالیں ۔ اس غرض کو پورا کرنے کے لئے وہ بالکل تیار ہیں کہ ہیردویوں کے ساتھ مل جائیں جو اپنی عادات میں رومی اور ہیرودیس انتپاس کے خواہ تھے۔ اسی طرح وہ بعد میں پھر ایک موقعہ پر مل جاتے ہیں (حضرت متی 12باب 16آیت )تاکہ اسے اپنے پنجہ میں پھنسائیں۔دنیا کا یہی حال ہے کہ وہ باہمی مخالفتوں کو بالائے طاق رکھ دیتی ہے تاکہ اپنی قوتوں کو جمع کرکے صداقت کا مقابلہ کرے ہیردویس پلاطوس کے ساتھ ملنے کے لئے تیار ہے ۔ (حضرت لوقا 22باب 12آیت )تاکہ وہ اس اتحاد سے مسیح کو تباہ کرسکیں۔ اب یہودی آپ کو پکڑنے کی ادھیڑ بن میں ہیں۔ مگر آپ گلیل کی طرف جاکر ان کے حسد سےرہائی پاتے ہیں۔

نصیتحیں اور مفید اشارے

1۔مسیح کے شاگردوں کے بے بدکاموں کی عیب گیری کرنا نئی بات نہیں۔ جو لوگ اپنے ایجاد کردہ خیالات کو رواج دینا چاہتے ہیں وہ ایسا ہی کیا کرتے ہیں۔

2۔اگر وہ جو اوروں کو سکھاتے ہیں خود فریسیوں کی طرح نوشتوں کے حقیقی معنوں سے ناواقف ہوں تو بڑے افسوس کی بات ہے ۔

3۔مسیح کے مغلوب دشمن (1)وہ اسے ایک سوال کے جال میں پھنسانا چاہتے ہیں (حضرت متی آیت 10)(2)پر وہ آپ کی دلیل کا جواب نہیں دے سکتے (آیت 11) وہ آپ کے کام میں کسی طرح کا نقص نہیں پکڑ سکتے (آیت 13)(4)اور جب کچھ نہیں ہوسکتا تو آپ کو مارنے کا منصوبہ باندھتے ہیں۔

4۔غور کیجئے کہ مسیح کس طرح اپنے دعووں کے ثبوت میں کلام الله کو پیش کرتے ہیں۔ اور کس طرح ان کے اختیار پر مہر کرتے ہیں۔ اس ساری بحث کو غور سے پڑھ کر دیکھنا چاہئے کہ وہ کس طرح کلام الله کو کام میں لاتے تھے اور اپنے مخالفوں کا منہ اسی سے بند کیا کرتے تھے۔

5۔دیکھئے عبادت خانہ میں ہمارے آقاومولا سیدنامسیح کس طرح ظاہر ہوتے ہیں۔ (1)وہ انسانی دل کے اندرونی خیالات کا جاننے والا ثابت ہوتا ہے۔ (2)اس کی رحم سے بھر پور ہمدردی ظاہر ہوتی ہے (3)اس کی نجات بخش قدرت اپنی جھلک دکھاتی ہے (4)اس کا صبر بھی مترشح ہے ۔

6۔خدا کی محبت کسی چیز کو ناپاک نہیں کرتی بلکہ سب چیزوں کو پاک کرتی ہے۔

7۔جوش بغیر محبت کے نفرت انگیز شے ہے ۔

Posted in: مسیحی تعلیمات, بائبل مُقدس, یسوع ألمسیح, خُدا, معجزات المسیح, نجات | Tags: | Comments (0) | View Count: (15636)
Comment function is not open
English Blog