en-USur-PK
  |  
15

الہام کی شناخت

posted on
الہام کی شناخت

Identification of Inspiration

Rev. Mawlawi Dr. Imad ud-din Lahiz 

(1830−1900)

الہام کی شناخت

علامہ مولوی پادری ڈاکٹر عماد الدین لاہز

           

جب الہام عقل کے ساتھ معرفت الہیٰ کاوسیلہ ٹھہرا تو اب یہ دریافت  باقی رہ جاتی ہے کہ صحیح الہام کہاں ہے کیونکہ کئی ایک کتابیں  ایسی ہیں جن کی نسبت  الہامی  ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے اور چونکہ ان کی بعض تعلیمیں  آپس میں مختلف  ہیں لہذا اس امر کا دریافت کرنا از بس  ضروری ہے کہ ان میں سے کونسی کتاب الہامی ہوسکتی ہے۔

          چونکہ  دنیا میں فریب اور دھوکا بھی بکثرت نظر آتا ہے ۔ اس لئے صحیح الہام بڑی فکر وغور کے بعد معلوم ہوسکیگا۔ ہر فکر بھی صحیح نہیں ہوتی ہے کیونکہ  اہل کذب اور دھوکے باز اور فریبی  لوگ بھی کچھ فکر رکھتے ہیں  پس طالب حق کو چاہیے کہ پہلے پوری طاقت فکری کے ساتھ فکر کی صورت پر غور کرے ۔

          فکر کرنا اور بات ہے اور فکر کی صورت پر کہ میں کس طرح سے فکر کرتا ہوں غور کرنا اور بات ہے ۔

          فکر کی صحت کے لئے یہی کافی نہیں ہے کہ عقلی یا نقلی خیالات  یا گذشتہ  واقعات  کے مقدمات کو ذہن میں ترتیب  دے کر نتیجہ اخز کریں بلکہ مناسب  یہ ہے کہ  ہم ان غلطیوں  کو زير نظر رکھیں  جو اکثر مقدمات کے ترتیب دینے میں واقع ہوتی ہیں ورنہ مقدمات کی ترتیب سے جو نتیجہ نکلیگا وہ غلط ہوگا اور روح کے لئے باعث ہلاکت۔

          پس منبع  خیالات یعنی حس روحانی کا خلوص اس معاملہ میں تلاش کرنا واجب ہے تاکہ اس میں تعصب اور حمایت  اور نفسانی اغراض کی  آمیزش نہ ہو کیونکہ اغراض نفسانی او ربیجا  جوش ہمیشہ  صحت فکر میں مانع ہوتے ہیں۔ چنانچہ تاریخ اس پر گواہ ہے کہ دنیا میں اسی قسم کے لوگ  کلایاً جزاً سچائی سے الگ رہے ہیں۔

          حس روحانی میں نہ صرف خلوص نیت کافی ہے بلکہ انسان کی دلی تمنا یہی ہونی چاہیے  کہ میرا مصمم ارادہ ہے کہ میں خدا کی مرضی پر چلو نگا۔ وہ یہ کہ میں زمین پر مسافر ہوں کچھ عرصہ کے بعد یہاں سے بالکل  چلا جاؤنگا یہاں کی سب چیزیں  اسی جگہ چھوڑنے والا ہوں سب لذتوں سے زیادہ  مجھے اپنا خالق پیارا ہے میں اس کی مرضی پر چلنا چاہتا ہوں اور اس لئے  اس کی مرضی  کو تلاش کرتا ہوں تاکہ اس پر چلوں یہ ارادہ میرے دل میں زندہ ارادہ  ہے گویا ایک چلاہٹ  ہے اس نو پیدا بچے کی جو شیر مادر کے لئے چلا رہا  ہے ۔

          میں نہ علم دکھلانے کو جھگڑتا پھرتا ہوں نہ کسی باپ داداے کی ناجائز  بات کی حمایت کرتا ہوں  نہ کسی کی تحقیر اور بدنامی کا خواہاں  ہوں اور نہ میں ایسی باتیں  کرکے دنیا کمانا چاہتا ہوں  میں صرف اپنے خالق  کی مرضی  کو تلاش کرتا ہوں تاکہ باقی عمر میں اس کی خدمت کروں۔

          میں اس لئے فکر کرتا ہوں کہ تاکہ صحیح الہام کو دریافت کروں کہ کہاں ہے اور اس کی روشنی سے میں بھی منور ہو جاؤں۔

          ا س کے علاوہ مقدمات پیش آئندہ کےد رمیان ان کے مدراج  کی بھی رعایت کرنی ہوگی۔ مثلاً  امور عقلی  کے متعلق  عقل کی طرف اور تجربہ  کی باتوں کے متعلق  تجربہ کی طرف  اور قدرت کی باتوں میں قدرت کی طرف رجوع کرنا ہوگا اور حکمت  کی باتوں کے متعلق  حکمت کی تہ تک  پہنچنا ہوگا اور اندھی اونٹنی  کی طرح  درختوں میں منہ مارتے پھرنا نہ ہوگا۔

          پس صحت فکری کے لئے ان تمام امور بالا پر غور کرنا اور ان کا لحاظ رکھنا ازبس ضروری اور لابدی ہے ۔

          خدا کے مدرسہ میں داخل ہونے والوں کے لئے یہ باتیں  بطور ابجد  کے ہیں وہ شخص  جو الہام کی روشنی میں  آجاتا ہے اس کا معلم خدا ہوتا ہے کیاہر سست  اور شریر  اور ٹھٹھ  باز  اور متکبر  ومتعصب  اور خود غرض  اور مغرور بھی وہاں  دخل پاسکتا ہے ہرگز نہیں  مگر سنجیدگی اور اخلاص  کے ساتھ ہر شخص  حاضر ہوسکتا ہے ۔

          دنیاوی حکمت سے الہیٰ حکمت ضرور بڑی چیز ہے لیکن دنیاوی  حکمت محنت وتندہی کے بغیر  ہرگز حاصل نہیں ہوسکتی اس لئے الہیٰ حکمت  کے لئے بے حد  تندہی بلکہ  من وہی درکار ہے ۔

          دیکھئے کہ دنیاوی لوگ علوم دنیاوی کو کیسی سخت  جانفشانی  کے ساتھ  حاصل کرکے  دنیاوی مدارج حاصل کرتے ہیں مگر علم الہیٰ  کے بارہ میں  کوئی کتاب بطور تفریح دیکھ کر کہتے ہیں کہ  مذہب  کوئی چیز نہیں۔ حاصل کلام یہ ہےکہ  الہامی کتاب کے دریافت  کرنے کے لئے  سب سے پہلے اور ضروری بات یہ ہے کہ  نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ تندہی کرکے فکر کریں۔

          ثانیاً  صحیح الہام کی شناخت  کے لئے الہام کی تعریف اور الہام کی غرض کو ہمیشہ  مد نظر رکھنا چاہیے۔

الہام کی تعریف یہ ہے

          الہام ایک روشنی ہے اس کی طرف سے جو قادر مطلق اور حکیم علی الاطلاق بلکہ جامع جمیع صفات کمال ہے ۔

او رالہام کی غرض یہ ہے

          عقل کو زیادہ بصیرت دے اور روح کی پیاس کو بجھائے  کچھ بتلائے اور کچھ عنایت کرے ۔

          پس الہام کی شناخت کے لئے خلوص نیت کے بعد سب سے بڑی اور معتبر  علامات یہی ہیں  کہ تعریف اور غرض کی شرطیں  اس میں پائی جاتی ہیں۔

چونکہ الہام ایک روشنی ہے

          پس جہاں وہ ہوگا وہاں سب کچھ اس کے وسیلہ سے صاف نظرآئیگا  جہاں آفتاب ہے وہاں روشنی ہے اور جہاں وہ نہیں ہے وہاں اندھیرا ہے جس ملک میں جس مقام میں اور جس خاندان میں اور جس آدمی کے دل میں الہامی  خیالات ہونگے وہاں ضرور روشنی ہوگی  روشنی میں سب کچھ صاف نظر آئیگا پس وہاں  بدی او رنیکی  ہر دو صاف صاف ظاہر ہونگی۔

          ہمارا دعویٰ ہے کہ الہام صرف بائبل مقدس ہی میں ہے جس کی تاریخ کی دلیل یہ ہے کہ جن ممالک اور شہروں اور قوموں میں بائبل پہنچ گئی ہے وہا ں عجیب تبدیلی اورزندگی تہذیب اور شائیستگی کی پائی جاتی ہے۔ اب ان حالات کو ان ممالک اور شہروں اور قوموں کے خیالات  سے مقابلہ کرو  جہاں بائبل نہیں پہنچی ہے کہ وہ کس حالت میں ہیں اور عیسائی ممالک کس حالت میں ہیں ۔افغانستان ، ایران، عربستان ، ترکستان اور ہندوستان کے رجواڑوں کو دیکھو کہ کس حالت میں ہیں۔ ان تمام خوبیوں  کا باعث  جو مسیحی  ممالک میں پیدا ہوئی ہیں  صرف بائبل مقدس ہی ہے اور دیگر ممالک میں جو قباحتیں  ہیں ان کی جڑ ان کی الہامی کتابیں ہیں۔

یہ الہامی روشنی قادر مطلق کی طرف سے ہے

          پس لازم ہے کہ الہام کے ساتھ بھی ایک اعلیٰ قدرت ہو کیونکہ  الہام قادر مطلق  کی روشنی ہے۔

          اس دنیا ومافیہا کو قادر مطلق نے بنایا ہے جب اس نے بنایا ہوگا تو اس وقت کیسی قدرت نمایاں ہوئی ہوگی اگرچہ ہم اس وقت  موجود نہ تھے کہ اس عظیم الشان قدرت کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے کہ اس نے کہا ہو جا اور ہوگیا۔ لیکن جب ہم غور کرتے ہیں کہ تو گویا اس لاثانی قدرت  کو ہم اپنی آنکھوں  سے نہایت  حیرت کے ساتھ دیکھتے ہیں ۔ اور خود دنیا کا نظام اور ترتیب  اس کی گواہی دیتی ہے کہ  ا س کا خالق وہ خدا ہے جو اپنی ذات اور صفات میں بے مثل اور لاشریک ہے ۔

          پس الہام میں بھی یہ صفت ہونی چاہیے کیونکہ  الہام اس کا قول ہے اور جہان اس کافعل قول اور فعل میں مطابقت ازبس ضروری ہے ۔

          اگر کوئی شخص بائبل پر غور کرے تو جانے گا کہ آدم سے لے کر موسی ٰ تک خدا نے خاص طور پر اپنے  خاص الخاص بندوں کو اپنے الہام سے سرفراز فرمایا جو عجیب قدرت کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے رہا۔ پھر موسیٰ سے لے کر مسیح تک خدا کی ساری مرضی  سارے جہان کے لئے  جو ظاہر کی گئی ہے اس کے اول  اور آخر اور درمیان میں بھی وہی قدرت نمایاں تھی جس کا ذکر مختصر طور پر کرنا خالی از فائدہ نہ ہوگا۔

          توریت شریف کی کتاب خروج کا رکوع 8 آیت 19 میں یہ ہے کہ " تب جادوگروں نے فرعون سے کہا یہ خدا کی قدرت ہے ۔" اور انجیل شریف بہ مطابق حضرت لوقا کے رکوع 11 آیت 20 میں ہے کہ " اگر میں خدا کی قدرت سے دیوؤں کو نکالتا ہوں  تو بیشک خدا کی بادشاہت  تمہارے پاس آگئی ہے ۔ " یہ اشارہ ہے ا س قدرت کی طرف  جو ظہور الہام کے وقت  ظاہر ہوئی تھی۔

          لیکن آج بھی بائبل  کے ساتھ ایک غیبی طاقت اور الہیٰ حمایت صاف صاف نظر آتی ہے باوجود اس کے کہ لوگ مخالفین اس کی مخالفت  میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے اس پر بھی یہ الہیٰ کتاب فتحیاب ہوتی چلی جارہی ہے اور کوئی  باطل خیال اس کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا۔ اس کتاب کی نسبت  شروع سے آج تک کہا جاتاہے کہ اس نے جہان کو الٹ دیا اور سچ ہے کہ الٹ دیا اور الٹی چلی جاتی ہے ۔ دشمنوں کی دشمنی اس کے ساتھ چلی جاتی ہے اور خود مٹتے جاتے ہیں  لیکن بائبل ترقی کرتی جاتی ہے ۔ دیکھئے کہ یہودیوں کی مخالفت  کہاں گئی اور رومیوں کی دشمنی کدھر گئی اور یونانیوں کا تعصب  کہاں گیا؟ اب بھی جس ملک میں بائبل جاتی ہے وہاں کے لوگ مخالفت کرتے ہیں لیکن رفتہ رفتہ  خود بخود  مغلوب  ہوتے جاتے ہیں  بائبل کا یہ دعویٰ نہایت سچا ہے کہ  میں سارے جہان کو فتح کرونگی۔

          سچ پوچھو تو دنیا میں کوئی  ایسی کتاب نہیں ہے جو بائبل کا مقابلہ کرسکے اس کی روشنی اور قدرت کے سامنے کوئی اور کتاب ٹھہر نہیں سکتی۔ بائبل اپنے پیروؤں کے دلوں میں ایسی تاثیر کرتی ہے جس سے اور ممالک اور اقوام اور خاندان اور ہر آدمی منور ہوکر  خدا کی قدرت  ظاہر کرتے ہیں۔ پس یہ لازوال اور عجیب قدرت جو بائبل کے ساتھ ہے گواہی دیتی ہے کہ  یہ کتاب قادر مطلق  کی طرف سے ہے ۔

الہام اس حکیم علی الاطلاق کی طرف سے ہے

          جس نے اس جہان کو حکمت کے ساتھ پیدا کیا کیونکہ تمام موجودات میں ایک عجیب حکمت  اور ترتیب  نظر آتی ہے ۔ اگرچہ انسانوں نے علی قدر ان حکمتوں میں سے چندے کو کچھ کچھ سمجھ بھی لیاہے تو بھی بہت سی ایسی حکمتیں  اس جہان میں ہیں جو انسان کے فہم سے باہر ہیں لیکن ان کے نہ سمجھنے سے ہم ہرگز نہیں کہہ سکتے  کہ جہان کا بنانے والا خدا جو حکیم علی  الاطلاق  ہے نہیں ہے ہماری یہ حالت  کہ بعض باتوں کو سمجھتے ہیں اور بعض کو نہیں سمجھتے ہیں دلیل ہے اس بات کی کہ جہان حکیم علی الاطلاق  کا بنایا ہوا ہے ۔

          یہی حال اس کے الہام کو بھی ہونا چاہیے بائبل میں بہت سے باتیں ایسی ہیں جنہیں ہم خوب سمجھتے ہیں اور اس کی حکمت  کی بزرگی دیکھتے ہیں لیکن  بعض باتیں ایسی گہری ہیں جو فہم سے باہر ہیں پس اگر جہان  کی حالت مذکور ہ دلیل ہے اس بات کی کہ یہ جہان حکیم علی الا طلاق  بنایا ہوا ہے تو الہام کی یہ حالت  بھی دلیل ہے اس بات کی کہ یہ  اسی کاقول ہے جس کا یہ جہان فعل ہے ۔

          اگر الہام کی ساری باتیں  ہماری عقل میں آسکتیں  تو ہم  صاف انکار کرتے اور کہتے  کہ یہ الہام  نہیں ہے کسی آدمی کی عقل میں سے  نکلی ہوئی  باتیں ہیں کیونکہ  ہماری عقلوں میں اس کی گنجائش ہے یہ عجیب بات ہے کہ جو دلیل  بائبل کے ثبوت کی ہے اسی کو لوگوں نے اس کی تردید  کی دلیل بنایا ہے اور جو بات کتب غیر الہامیہ کی تردید  کی ہے اسے ثبوت کی دلیل بنایا ہے اور یہ غلطی  اس لئے واقع ہوتی کہ انہوں نے  اپنی صورت فکری پر فکر نہیں کیا جس کا ذکر میں نے اس لیکچر کے شروع میں کردیا ہے ۔

الہام جامع جمیع صفات کمال کی طرف سے ہے

          اس لئے لازم ہے کہ اس سے خدا کی بزرگی کمال کے طور پر ظاہر ہو ۔ ہم دنیا میں کوئی تعلیم  ایسی نہیں دیکھتے کہ بائبل سے زیادہ خدا کی عزت دکھلاسکے  اور اس کی صفات کمال کا انکشاف بخشے۔ ہاں جن مقامات  پر ناواقف لوگ اعتراض کرتے ہیں  ہم انہیں  مقامات  میں اس کی زیادہ  تر بزرگی  دیکھتے ہیں  اور دکھلا بھی سکتے ہیں ۔ چنانچہ  آئندہ  لیکچروں میں ان کا ذکر  وقتاً فوقتاً آئے گا۔ اس قسم کے لوگو ں کے کا نشایہ ہے کہ وہ نہ تو بائبل کی اصطلاحوں سے واقف ہیں اور نہ ان اسرار سے جو بائبل میں ہیں۔ چونکہ بائبل  کے صرف کاغذ اور جلد ان کے ہاتھ میں اس لئے وہ اپنی اصطلاحوں او ر اپنے  خیالات  فاسدہ کی بنا پر  اعتراض گھڑلیتے ہیں۔ لیکن چونکہ اب بائبل  کا علم وسیع  تر ہوتا جاتا ہے ان کے اعتراض  خود بخود  اڑتے جاتے ہیں جب شروع شروع میں بائبل آتی تھی اس وقت لوگوں کے کچھ اور ہی اعتراض  تھے اور اب کچھ اور ہی اعتراض ہیں۔

الہام کی غرض یہ ہے کہ عقل روشن تر ہوجائے

          پس وہ کون سی کتاب ہے جو بائبل سے زیادہ ہماری حالت کو اور نیکی وبدی کو اور خدا کی خدائی  کو دکھلاسکے اگر کوئی ایسی کتاب دنیا میں موجود ہے تو کسی عالم بائبل  کے پاس لے کر آناچاہے تو کھرے اور کھوٹے میں تمیز ہوجائے ۔

          بائبل میں یہی خوبی ہے کہ وہ عقل کی مدد کرتی ہے اور اسے روشن تر بناتی ہے۔

الہام کی غرض یہ ہے کہ اس کے وسیلہ سے روحانی اقتضا پورا ہو

مجرد عقل نے اور دوسروں معلموں کی کتابوں نے تو کماحقہ روح کی خواہش کو بھی نہیں سمجھا چہ جائیکہ  وہ اس کی تکمیل  کرتے صرف بائبل ہی نے اس خواہش  کو آدمیوں میں دکھلایا ہے اور اس کے پورا کرنے کا علاج بھی بتلایا ہے اگر کچھ کچھ عقل نے ان معلموں نے سمجھا بھی تھا تو تکمیل کے عوض حرمان کی راہ دکھلائی تھی اور ابدی خوشی سے روح کو نا امید کردیا تھا یا باطل امید میں پھنسا رکھا تھا۔

الہام کی غرض یہ تھی کہ روح کو کچھ بخشے بھی

          گناہ سے اور گناہ کے عذاب سے رہائی  روح کو اس وقت درکار ہے اور ابدی خوشی کی امید یقین کےساتھ روح کو اسی وقت مطلوب ہے سو یہ بات سوائے بائبل کے کوئی کتاب ایسی نہیں ہے کہ روح کو عنایت کرسکے ۔

          لیکن ان دو انعاموں کا یقین وہی شخص کرسکتا ہے جس نے بائبل سے یہ یقین حاصل کیا ہو۔ لیکن جنہوں نے  یقین کا یہ درجہ حاصل نہیں  کیا ہے غور کریں تو بائبل کے پیروں کے افعال واقوال اور حرکات وسکنات  کو غیر لوگوں کے افعال واقوال اور حرکات وسکنات کے ساتھ مقابلہ کرکے کسی  قدر دریافت کرسکتے ہیں لیکن یہ مقابلہ ہمیشہ خواص میں کیا جاسکتا ہے نہ کہ عوام میں ۔ کیونکہ جیسے جسم میں اور عقل میں لوگ مختلف ہوتے ہیں ویسے ہی روح میں بھی مختلف ہوتے ہیں۔
Posted in: مسیحی تعلیمات, بائبل مُقدس, یسوع ألمسیح, خُدا | Tags: | Comments (0) | View Count: (16798)
Comment function is not open
English Blog